سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(177) مسواک اور دیگرفطری امور کا بیان

  • 11921
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3463

سوال

(177) مسواک اور دیگرفطری امور کا بیان

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسواک کی مقدار کتنی ہے؟کیا کسی دوسرے کے مسواک کو استعمال کیا جاسکتا ہے؟اور کیا روزہ دار کے لئے مسواک کرنا جائز ہے؟۔اخوکم:ابوالحسنات


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(1)۔مسواک کی شرعا کوئی حد نہیں:

کیونکہ اسکی حد بندی میں نص صریح نہیں  اور اندازے اور قیاس سے ثابت نہیں ہوتے.کیونکہ اسکا بیان شارع کے حوالے ہے تو جو مسواک کے لئے ایک بالشت کی مقدار بتاتے ہیں یا بقدر انگلی کے موٹائی بتاتے ہیں تو وہ اسکی  کوئی شرعی حجت پیش نہیں کرتے۔تو ہر اس لکڑی سے مسواک کرنا  جائز ہے جس سے منہ اور دانتوں کی صفائی ہو سکتی ہے اور دور والے کنارے تک پہنچتی ہو کیونکہ نبیﷺ سے یہ ثابت ہے کہ زبان پر مسواک ملتے تھے  یہاں تک کہ آپﷺ ’’اع‘ اع‘‘ کہتے . عنقریب اسکا ذکر آئے گا۔ابو سلمہ ﷜ سے روایت ہے کہ میں نے  رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ’’اگر میں اپنی امت پر شفقت نہ سمجھتا تو انہیں ہر نماز  کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا اور عشاء کی نماز کو تہائی رات  تک مؤخر کرتا‘‘

وہ کہتے ہیں کہ زید بن خالد جب نمازوں کے لئے مسجد حاضر ہوتے  تو انکا مسواک کان پر کاتب کے قلم رکھنے کی جگہ پر ہوتا تھا۔جب بھی نماز کے لئے کھڑے ہوتے  تو مسواک کرکے  پھر اپنی جگہ واپس رکھدیتے‘‘۔      امام احمد(6/41  (1ابوداود(1/11)ترمذی(1/9)  اور سند اسکی صحیح ہے۔

یہ حدیث بالشت بھر کی حد مقرر کرنے کی تردید کررہی ہے کیو نکہ اس قدر  لمبی اور موٹی مسواک کا نمازی کا کان   پر رکھنا ممکن نہیں مگر یہ کہ سر ٹیڑھا کئے ہوئے کھڑا ہو ساتھ ہی رکوع سجدے میں اس کے گرنے کا اندیشہ بھی ہے۔

(2)۔مسواک کسی بھی لکڑی کا ہونا جائز ہے       :

لیکن پیلو کی ڈنڈی مستحب ہے اور دلیل اسکی حدیث ہے۔فر رحمہ اللہ سے روایت ہے  وہ عبداللہ بن مسعود ﷜ سے روایت کرتے ہیں  وہ نبی ﷺ کے لئے پیلو کی مسواک کاٹ کر لایا کرتے تھے،ہوا آپ کو الٹتی تھی اور آپ کی پنڈلیاں پتلی پتلی تھیں تو رسول اللہﷺ کے اصحاب کی ہنسی نکل گئی آپ ﷺ نے فرمایا:تم کیوں ہنسے؟تو انہوں نے کہا:’’اسکی پتلی پنڈلیوں سے‘‘۔ تو نبیﷺ نے فرمایا’’قسم ہے اس ہستی کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ پنڈلیاں میزان میں احد سے بھاری ہیں‘‘۔

ابوداود الطیالسی رقم(255)احمد(  (420/1ابونعیم فی الحلیہ(/1127( ہیثمی مجمع الزوائد( (100/2-189/1  الحاکم(3      (317/باسنادحسن کمافی الارواء (140/1برقم:65) ۔

اور عبدالرحمان بن ابی بکر  کے مسواک کے قصے کی عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث بخاری میں آئی ہے کہ وہ تر ٹہنی تھی اور طبرانی نے اوسط میں معاذسے مرفوعا روایت کیا ہے ’’زیتون کے مبارک درخت کی مسواک اچھی مسواک ہے منہ کی اصلاح کرتی ہے گڑھے ختم کرتی ہے. یہ میری مسواک ہے اور مجھ سے قبل انبیاء کی مسواک ہے اور اسکی سند میں احمد بن محمدبن محیض ہے جیسے کہ تلخیص الحبیر (72/1 )  مجمع الزوائد(100/2)میں ہےاور اس میں پیلو کے استحباب کی ایک اور حدیث ہے اور اس کی سند حسن ہے ۔اور ابو نعیم نے معرفۃ الصحا بہ میں ابوزید الغافقی کے ترجمے میں  روایت کیا ہے:

’’مسواک تین  قسم کے ہیں :پہلے نمبر پر اراک ہے (پیلو) ہے،پھر عنم (زیتون)یا بطم(بن)۔

(3)-اور مسواک جیسے مردوں کے لئے سنت ہے اسی طرح عورتوں کے لئےبھی سنت ہے۔

دونوں میں کوئی فرق نہیں  کیونکہ رسول اللہ ﷺ دونوں کے رسول ہیں اور جو کہتا ہے کہ عورتیں چیونگم چبائیں یہ ان کے کے لئے  مسواک کا قائم مقام ہے  تو یہ بے  دلیل ہے جیسے کہ اس کی طرف صاحب ہدایہ نے (1/221) میں اشارہ کیا ہے اور ابن عابدین نے رد المختار(1/78)میں۔کیونکہ صحیح احادیث  میں عورتوں  کے  لئے مسواک کا ثبوت ہے۔

(4)-کسی کا مسواک اس کی اجازت سے استعمال کرنا جائز ہے۔ 

اور اس میں مر و یا عورت کا کوئی فرق نہیں جیسے کہ عائشہ﷜ سے روایت آئی ہے،وہ کہتی  ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا مسواک تھا جس سے  آپﷺ مسواک کیا کرتے تھے تو آپﷺ مسواک دھونے کے لئے مجھے دیتے تو  میں پہلے  اس کے ساتھ مسواک کر کے دھو لیتی اور آپﷺ کو دیتی‘‘۔ابوداود(1/13)المشکاۃ(1/45)

ابن عمر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرما یا: میں نے خواب میں  اپنے آپ کو مسواک کرتے دیکھا میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک بڑا تھا۔تو میں نے مسواک چھوٹے کو پکڑا دیا تو مجھے کہا گیا کہ بڑے کو دے دو تو پھر میں نے  ان میں سے بڑے کو دے دی۔(بخاری:(1/38)مسلم(2/244) یہ دونوں حدیثیں  دوسرے کا مسواک  استعمال  کر نےکے جواز   پر دلالت کرتی ہیں  مرد کا ہو یا عورت کا ان کی اجازت سے۔

(5)-روزہ دار کے لئے صبح و شام مسواک کا  استعمال جائز ہے:

اور جو پچھلے پہر مسواک سے منع کرتے ہیں تو وہ اس حدیث سے استدلال  کرتے ہیں جس میں آیا ہے:’’روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی بو سے اچھی ہے‘‘ تو روزہ دار کو منہ کی بو زائل کرنی مناسب  نہیں۔

لیکن یہ استدلال بعید ہے وہ بو معدے سے آتی ہے صرف منہ سے نہیں۔

جواز کے دلائل بکثرت ہیں۔

1-مسواک کے حکم والی احادیث مطلق ہیں  ان میں کسی وقت کی تخصیص نہیں تو تخصیص کے لئے صریح قوی دلیل چاہیے جو ہے نہیں۔

2-وہ حدیث جسے طبرانی نے عبدالرحمٰن بن غنم سے روایت کیا ہے. وہ کہتے ہیں کہ:’’میں نے معاذ بن جبل  ﷜سے  پوچھا:اگر  میرا روزہ ہو تو  مسواک کر سکتا ہوں؟ انہوں نے کہا :ہاں۔ میں نے  کہا : دن میں  کس وقت کروں؟ انہوں نے کہا صبح وشام۔میں نے کہا: لوگ تو پچھلے پہر   مسواک  مکروہ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک  مشک کی خوشبو سے زیادہ  اچھی ہے‘‘۔ تو انہوں نے  کہا :’’سبحان اللہ! اللہ نے تو انہیں مسواک کا حکم دیا ہے  تو وہ انہیں حکم  نہیں دے سکتا کہ وہ قصدا اپنے  مونھوں کو بد بو دار بنائیں اس میں خیر نہیں بلکہ شر ہے۔

حافظ نے تلخیص ص(113)میں کہا ہے :اس کی  سند جید ہے۔

جیسے کہ ارواء الغلیل(1/106) میں ہے۔

3-امام بخاری(1/259) میں کہتے ہیں :’’ باب روزہ دار کے لئے خشک  تر مسواک کا اور عامر بن ربیعہ سے  ذکر کیا ہے وہ کہتے ہیں: میں نے نبیﷺ کو  بحالت روزہ  اتنی بار مسواک کرتے  دیکھا ہے کہ میں گن نہیں سکتا۔

حافظ نے تلخیص(1/62) میں کہا ہے اس کی سند حسن ہے۔

 اور جو بیہقی نے (4/274) میں علی سے روایت  کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب تم روزہ رکھو  تو صبح مسواک کرو اور پچھلے پہر مسواک مت کرو، کیونکہ کسی بھی روزہ دار کے پچھلے  پہر ہونٹ خشک ہو جائیں تو  یہ قیامت  کے  دن دونوں آنکھوں کے درمیان نو  ر  کا  سبب بنے گا، اسی طرح اس کی سند ضعیف ہے ، اسی طرح حافظ نے تلخیص (1/62) میں کہا۔

اسی طرح وہ حدیث  جسے دارقطنی نے (3/203) میں ابو ہریرہ ﷜ سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں، آپ ﷺ عصر تک مسواک کرسکتے ہیں  عصر کی نماز پڑھنے کے بعد مسواک پھینک دیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے  فرماتے ہوئے سنا کہ    روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک  مشک کی بو سے بہتر ہے‘‘۔تو یہ حدیث موقوف ہے اور ثابت احادیث کا  مقابلہ نہیں کر سکتی اور اس کے ساتھ یہ ضعیف  بھی ہے  اس میں ایک  راوی  عمر بن قیس ہے  جو سندھی مشہور تھا ۔

(6)-کیا انگلی کے ساتھ مسواک کرنا جائز ہے؟۔

ہم کہتے ہیں کہ اس باب میں احا دیث آئی ہیں۔

1-حدیث جسے طبرانی نے اوسط میں روایت کیا ہے اسی طرح المجمع(2/100) میں ہے، عائشہ سے روایت ہے  وہ  کہتی ہیں : میں نے کہا: اے اللہ کے رسول!  کسی آدمی کا منہ خراب ہو جائے تو  کیا وہ مسواک  کرے ؟ فرمایا : ہاں۔  میں نے کہا کیسے کرے؟ فرمایا : انگلی منہ میں داخل کر کے  ملے‘‘ اس کی سند میں عیسٰی بن عبداللہ الانصاری ضعیف ہے، ذہبی نے میزان میں  اس کی حدیثیں  ذکر کر کے  اسے منکر کہا ہے اور یہ ان میں سے ایک ہے۔ حافظ نے تلخیص(1/70)  وہی کہا جو ہم نے کہا۔

2- وہ حدیث جسے بیہقی نے (1/40) میں اور دار قطنی نے نقل کیا ہے:’’انس﷜ سے روایت  ہے  وہ نبی ﷺ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’مسواک کی جگہ  انگلیاں کام دیتی ہیں‘‘۔

یہ حدیث عبد الحکم  القلمی کی وجہ سے  ضعیف ہے، امام بخاری   نے اسے منکر الحدیث کہا ہے۔ اسی لئے بیہقی  کہتے ہیں :’’انگلی سے مسواک کے بارے  ضعیف حدیث مروی ہے پھر  اس کی ایک اور سند ذکر کی ہے اور اس میں عیسٰی بن شعیب ہے۔

حافظ نے تلخیص میں کہا ہے اس کی سند  میں اعتراض ہے  اور الارواء رقم(69) میں ہے  کہ یہ حدیث  ضعیف ہے۔

3-علی بن ابی طالب﷜ سے روایت ہے کہ انہوں نے پانی کا لوٹا منگوایا اور ہاتھ منہ دھوئے تین بار اور کلی کی  اور ایک انگلی  منہ میں داخل کی‘‘۔الحدیث۔احمد(1/158) اور اس کے آ خر میں ہے یہ رسول اللہﷺ کا وضوء ہے۔

حافظ نے تلخیص میں کہا ہے: یہ زیادہ صحیح ہے، میں کہتا ہوں اس حدیث میں مسواک کی نفی نہیں ہے، اس کے ساتھ اس اس کی سند میں ابا مطر ہے اور وہ مجہول ہے جیسے  کہ کتاب موسوعہ رجال کتب التسعہ(4/454) اور میزان الاعتدال (4/574)میں ہے۔

4-طبرانی نے اوسط میں کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف سے روایت کیا ہے  اور وہ اپنے  دادا سے روایت کرتے ہیںوہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:انگلیاں مسواک کا کام دیتی ہیں جب مسواک  نہ ہو اور اس میں کثیر بہت  زیادہ ضعیف اور متہم ہے۔

5-ابو عبید نے کتاب الطہور میں عثمان﷜ روایت کیا ہے کہ جب وہ وضوء کرتے تو انگلی سے مسواک کرتے اسی طرح تلخیص(1 (70/میں ہے ،لیکن اس کی سند ذکر نہیں کی تا کہ دیکھی جائے۔    

ابن قدامہ نے (/1091(میں کہا ہے کہاگر انگلی یا کپڑے سے مسواک کرے  تو کہا گیا ہے کہ سنت کو نہیں پہنچا کیو نکہ شرع میں یہ وارد  نہیں اور نہ ہی اس سے لکڑی کے مسواک  کی طرح صفائی ہوتی ہے۔

صحیح بات یہ ہے کہ کچھ نہ کچھ صفائی حاصل ہوتی ہے اگر کثیر سنت سے عاجز  ہو تو قلیل سنت ترک نہیں کرنی چاہیے۔پھر انس کی مذکو رہ حدیث ذکر کی۔

اور فقہ السنہ میں ہے جس کے دانت نہ ہوں تو انگلی سے مسواک کرنا مسنون ہے عائشہ کی حدیث کی وجہ سے جو ابھی گزری ۔

میں کہتا ہوں: کہ وہ ضعیف ہے تو کیسے سنت ہوئی۔

اور المجموع(1(282/میں ہے: انگلی اگر نرم ہو تو اس سے مسواک نہیں ہو سکتا اور اگر سخت ہو تو اس میں کئی وجوہات ہیں صحیح اور مشہور وجہ یہ ہے کہ اس سے مسواک نہیں ہوتا کیونکہ یہ نہ مسواک ہے اور نہ ہی قائم مقام۔

دوسری وجہ :مقصود حاصل ہونے کی وجہ سے مسواک ہو جاتا ہے۔

تیسری وجہ:اگر لکڑی وغیرہ نہ ملے  تو مسواک ہو جاتا ہے،ورنہ نہیں پھر کہا ہے :بہتر یہی ہے کہ مسواک ہو جاتا ہے‘‘۔

اور  رد المختار ((78/1 میں ہے  اس سے  سنت حاصل ہو جاتی ہے۔

میں کہتا ہوں: کہ اس باب کی تمام احادیث ضعیف ہیں اس لئے انگلی سے مسواک کرنا سنت نہیں،مسلمان کو  لکڑی کے ساتھ مسواک کر نی چاہیے اگر پاس مسواک نہ ہو تو اپنے ساتھی سے مانگ لے اس کے پاس بھی نہ ہو تو انگلی سے مسواک کرے۔اللہ سے امید ہے کہ  وہ یہی قبول کرے گا۔ لیکن اسے عادت نہیں بنانا چاہئے جیسے تمام المنہ ص (90 )میں ہے۔

(7)-مسواک کے فضائل اور فوائد:

آثار میں مسواک کے بڑے فوائد وارد ہوئے ہیں جو یہ ہیں:

1-اس میں رسولاللہ ﷺکی فرما نبرداری ہے اور دنیا وآخرت کی سعادت نبیﷺ کی فرمانبرداری سے حاصل ہوتی ہے اور دنیا وآخرت کی بدبختی آپﷺ کی نا فرمانی کا نتیجہ ہے۔

2-وہ حدیث جو ابن ماجہ نے اور ابو نعیم نے علی  سے روایت  کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ’’تمھارے منہ قرآن کے راستے  ہیں تو مسواک سے اس کی صفائی کر لیا کرو‘‘۔اس کی سند  میں ضعف ہے۔

اور دارقطنی نے ((85/1میں اپنی سندسے ابن عباس﷜ سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ مسواک  میں دس خصلتیں ہیں:یہ اللہ کی رضا،شیطان کی ناراضگی اور فرشتوں کی خو شی کا سبب ہے،مسوڑھوں کے لئے مفید ،اور گڑھوں کو ختم کرتا ہے نظر تیز کرتا ہے منہ کی بو درست کرتا ہے،یلغم کو دور کرتا ہے ،اور یہ سنت ہے اس سے نیکیاں بڑھتی ہیں‘‘۔

اور  اس کی  سند میں معلٰی بن میمون ضعیف اور متروک ہے۔

میں کہتا ہوں:ان خصلتوں میں سے اکثر مسواک میں موجود ہیں اگرچہ یہ اثر ضعبف ہے۔

اور تلخیص((71/1 میں ہے:’’فائدہ :قشیری نے  بلا سند ابودرداء سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں: مسواک کا التزام کرو، اس سے  غفلت مت بر تو، مسواک  میں چوبیس خصلتیں ہیں،سب سے افضل یہ ہے کہ  یہ رحمٰن کو راضی کرتا ہے، اس سے سنت پر عمل  ہوتا ہے ، اس سے نماز ستائیس گنا ہو جاتی ہے اس سے فراخی  اور غناء پیدا ہوتی ہے، مہک اچھی ہو تی ہے،مسوڑھے  مضبوط کرتا ہے، درد سر کو آرام ملتا ہے،داڑھ کا درد ختم ہو جاتا ہے، چہرہ منور ہونے کی وجہ سے  فرشتے مصافحہ کرتے ہیں،دانت میں چمک پیدا ہوتی ہے اور باقی ذکر  کی ہیں لیکن صحیح یا ضعیف سند سے  اس کی کوئی اصل نہیں۔

اور  ردالمختار((78/1میں مذکورہ بالا کے  علاوہ  یہ بھی ذکر ہیں۔ یہ بڑھاپے میں تاخیر  کرتا ہے،نظر  تیز کرتا ہے اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ موت کے علاوہ سب بیماریوں سے شفا ہے، یہ پل صراط پر تیز رفتاری سے چلائے گا،دانت سفید کرتا ہے،کھانا ہضم کرتا ہے ،بلغم ختم کرتا ہے،فصاحت بڑھاتا ہے ،معدے کو تقویت دیتا ہے،کڑوا خلط ختم کرتا ہے،سر کی رگو ں کو تسکین پہنچاتا  ہے،روح کا نکلنا آسان بناتا ہے،اور اس کے منافع میں ہے  کہ  یہ تکلیف دہ چیز  کو دور کرتا ہے اور سب سےاعلیٰ فائدہ  موت کے وقت شہادت یاد دلا تا ہے،اللہ تعالیٰ اپنے  فضل وکرم سے ہمیں نصیب فرمائے۔ اور المرقاۃ((3/2میں اس کے ستر فوائد ذکر ہوئے  ہیں جیسے کہ افیون میں ستر نقصانات ہیں۔

(8)-مسواک کرنے کی کیفیت۔

دانتوں میں مسواک عرض میں کرنا چاہیے ،طول میں نہیں جیسے کہ السنن الکبریٰ((40/1میں  مذکور  بعض احادیث میں آیا ہے،حافظ نے تلخیص((65/1میں کہا ہے لیکن یہ ضعیف ہیں اور اسی طرح بیہقی نے بھی کہا ہے۔

زبان پر مسواک کرنے  کا طریقہ زبان کی لمبائی میں ہے جیسے بخاری(38/1 ) اور مسلم ((128/1 میں ابو موسیٰ اشعری ﷜ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ:میں نبی ﷺ کے پاس آیا، میں نے آپ ﷺ کو مسواک ہاتھ میں پکڑے مسواک کرتے ہوئے پایا۔آپ’’اع اع‘‘ کہہ رہے تھے اور مسواک آپ کے منہ میں تھا گویا کہ آپ ابکائی کر رہے ہوں۔اور مسلم کی روایت میں ہے:’’مسواک کا کنارہ زبان پر تھا‘‘۔ اور احمد کے یہ لفظ ہیں’’مسواک کا کنارہ زبان پر تھا اور آپ اوپر کی جانب مسواک کر رہے  تھے‘‘۔

راوی کہتا ہے:’’گویا کہ آپ طول میں مسواک کر رہے تھے‘‘۔

اور ہاتھ پکڑنے کی کیفیت کے بارے میں ہم نے کچھ نہیں دیکھا مگر ابن عابدین نے  رد المختار((78/1  اور البحر والنہر میں کہا ہے:’’مسواک پکڑنے کا طریقہ چھوٹی انگلی مسواک کے نیچے ہو اور انگوٹھا مسواک کے کنارے کے نیچے ہو اور باقی انگلیاں اوپر ہوں جیسے کہ ابن مسعود﷜ نے روایت کیا ہے۔

میں کہتا ہوں کہ ہم نے ابھی تک ابن مسعود  کی روایت نہیں دیکھی،دیکھنا چاہیے کہ وہ کہاں ہے؟۔

(9)-مسواک کے  اوقات:

اکثر اوقات احادیث میں کلی کرتے وقت اور نماز کے لئے کھڑے ہوتے وقت مسواک کرنا آیا ہے۔ اور صحیح مسلم(127(1/ میں ہے، عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا نبی ﷺ جب گھر میں داخل ہوتے تو سب  سے پہلے کیا کرتے  تھے ؟ تو انہوں نے کہا:’’مسواک کرتے تھے ‘‘۔اور نبیﷺ تہجد کے لئے اٹھتے منہ مسواک سے صاف کرتے تھے اور ظاہر ہے یہ مسواک سے پہلے تھا۔ اور ابو نعیم معرفۃ الصحابہ میں محرز سے روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ رات کو مسواک کرکے سوتے تھے۔جیسا کہ تلخیص(1(69/ میں ہےاور کتاب السواک میں ابو عتیق کی حدیث مروی ہے،جابر سے روایت ہے کہ وہ بستر پر لیٹتے وقت مسواک کرتے تھے اور جب رات کو بیدار ہوتے تومسواک کرتے تھے اور  جب نماز کے لئے نکلتے تو مسواک کرتے۔ میں نے کہا:آپ نے اپنے آپ کو مشقت میں ڈال رکھا ہے تو کہنے لگے’’اسامہ﷜ نے مجھے خبر دی کہ نبیﷺ اسی طرح مسواک کیا کرتے تھے۔اور اس کی سند میں حرام بن عثمان راوی متروک ہے۔

ابو نعیم،عبداللہ بن عمرو سے مرفوعا روایت کرتے ہیں:’’اگر میں اپنی  امت پر مشقت نہ سمجھتا تو سحری کے وقت انہیں مسواک کا حکم دیتا‘‘۔اس کی سند میں ابن لہیعہ ہے اور  متابعات میں یہ حسن الحدیث ہے۔

طبرانی اور بزار روایت کرتے ہیں جیسا کہ  المجمع (97/2) میں ہے:عباس بن عبدالمطلب سے روایت ہے وہ کہتےلوگ آپ ﷺ پر  بغیر مسواک کیے داخل ہوتے تھے تو آپ ﷺ نے فرماتے: مجھ پر پیلے  دانت لئے داخل ہوئے ہو مسواک کر کے آیا کرو۔ اگر میں اپنی امت پر مشقت نہ سمجھتا تو ہر نماز کے لئے ان پر مسواک فرض کر دیتا جیسے کہ ان پر وضوء فرض ہے اور  اس کی  سند میں  ابو علی الصیقل مجہول ہے۔

 اور احمد کے پاس  حدیث ابن عمر مین ہے کہ’’ وہ مسواک پاس  رکھ کر سویا کرتے تھے اور جاگتے  ہی پہلے مسواک کیا کرتے تھے‘‘۔اور   بعض سندوں میں ہے:’’رسول اللہ ﷺ جس گھڑی بھی رات کو بیدار ہوتے  تو مسواک  کرنا شروع کردیتے‘‘۔

جیسے کہ المجمع ((98/2 میں ہے۔ اور اس کی سند  میں قابل اعتراض بات ہے۔ اور زید بن خالد الجہنی کہتے ہیں :’’نبیﷺ جب  بھی کسی نماز کے لئے گھر سے نکلتے تو مسواک کرتے‘‘۔(طبرانی ) اور اور اس کے ثقہ راوی ہیں جیسے کہ المجمع((92/2 میں ہے۔

یزید بن الاصم میمونہ سے روایت کرتے ہیں اور یہ ان کے زیر یتیم تھے وہ ذکر کرتے ہیں کہ مسواک برتن میں پڑا رہتا تھا اور آپ کسی کام میں  یا نماز میں مشغول رہتی نہیں تو مسواک پکڑ کر مسواک کرتی رہتیں۔

طبرانی نے اسے الکبیر میں روایت کیا ہے اور راوی اس کے ثقہ ہیں جیسے کہ المجمع(100/2)  میں ہے۔

طبرانی اور بیہقی ابن عباس کی حدیث نقل کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ دوآ دمی نبیﷺ کے پاس آئے اور دونوں کا ایک ہی کام تھا۔ تو ایک کے منہ سے بو محسوس کی تو فرمایا:’’تو مسواک نہیں کرتا‘‘۔ اس ن ے کہا ہاں کیو ں نہیں۔ الحدیث۔

مرجعہ کریں تلخیص ،ابن  ابی شیبہ((172-168/1

یہ تمام احادیث مسواک کے معاملے میں نبیﷺ کے کثرت اہتمام پر دلالت کرتی ہے اور اس کا حکم ہے وقت ہے خصوصا او اوقا ت جن کا ذکر  سابقہ احادیث میں ذکر ہوا ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص393

محدث فتویٰ

تبصرے