سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(4) ’رحموں‘ کا علم صرف اللہ کے پاس ہے

  • 11919
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3371

سوال

(4) ’رحموں‘ کا علم صرف اللہ کے پاس ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ کی ایک صفت بایں الفاظ بیان ہوئی کہ ’’وہ ہی پیٹ کی چیزوں کوجانتا ہے۔‘‘ [۳۱/لقمان : ۳۴ ]

                یعنی ماں کے پیٹ میں نر یامادہ ہے اس کاعلم صرف اﷲ تعالیٰ کوہے جبکہ آج جدید سائنس کے ذریعے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں بچہ ہے یابچی۔ اس کے متعلق ذہنی الجھن کاشکار ہوں براہِ کر م قرآن پاک اورحدیث کی روشنی میں جواب دے کر مجھے مطمئن کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن پاک کی کوئی صراحت امرواقع سے متعارض نہیں ہے، اگرکوئی بظاہرقرآن پاک کے خلاف ہوتو امرواقع محض دعویٰ ہو گا، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں یا پھر قرآن پاک کاامرواقع سے تعارض صریح نہیں ہوگا کیونکہ قرآن پاک کی صراحت اورواقع کی حقیقت دوقطعی امر ہیں اوردوقطعی چیزوں میں کبھی تعارض نہیں ہوتا۔ اس تمہید کے بعد ہماری گزارش ہے کہ آج جدید سائنس، مثلاً: الٹراساؤنڈ کے ذریعے اطباء حضرات کادعویٰ ہے کہ وہ ماں کے پیٹ میں نریامادہ ہونے کے متعلق معلومات فراہم کر سکتے ہیں، اگر یہ محض دعویٰ ہے تو اس کے متعلق گفتگو کی ضرورت نہیں ہے، یہ بات ہمارے مشاہدہ میں ہے کہ بیوی خاوند نے اپناشوق فضول پورا کرنے کے لیے کسی ڈاکٹر کی خدمات حاصل کیں، اس نے جدیدآلات کے ذریعے زوجین کوتسلی دی کہ آپ کے ہاں پھول جیسا بچہ پیدا ہوگا لیکن ولادت اس کے برعکس ہوئی، یعنی بچی پیدا ہوئی، بیسیوں واقعات شہادت کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں۔ اگر یہ جدید ’’تحقیق‘‘نشانے پر بیٹھ جائے اورڈاکٹر کی پیشین گوئی کے مطابق بچہ ہی پیدا ہوتو بھی آیت قرآن پاک کے خلاف نہیں ہے، کیونکہ آیت ایک غیبی امر پردلالت کرتی ہے۔ اورجنین کے متعلق غیبی امر صرف یہ نہیں کہ وہ نر ہے یامادہ، بلکہ حدیث کے مطابق شکم مادر کے اندر جب استقرار حمل ہوتا ہے توپہلے نطفہ ہوتا ہے، پھر منجمد خون، اس کے بعد گوشت کا لوتھڑا، پھراس میں روح پھونکی جاتی ہے، ان مراحل میں جدید آلات سے معلوم نہیں کیاجاسکتا ہے کہ شکم مادر میں نر ہے یا مادہ، اس کے بعد شکل وصورت بنتی ہے۔ قرآن پاک کی تصریح کے مطابق یہ سب کچھ تاریکیوں کے اندر ہی ہوتا رہتا ہے، حتی کہ وہ جنین مقررہ وقت کے بعد انسان کی شکل وصورت لے کر ماں کے پیٹ سے باہر آجاتا ہے۔ ان تین پردوں میں پہلاپردہ ماں کاپیٹ، دوسرا ماں کے اندر رحم اور تیسرا رحم کے اندر جھلی جس میں وہ بچہ ملفوف اورمحفوظ ہوتا ہے ۔واضح رہے کہ چار ماہ کے بعد جب جنین میں روح ڈالی جاتی ہے تواس کی عمر، اس کی روزی ،خوشحال ہو گا یا تنگ دست، نیز یہ نیک بخت ہوگایابدبخت، یہ تمام باتیں لکھ دی جاتی ہیں اوریہ رحم کے مراحل میں شامل ہیں۔ آیت کریمہ میں اس کے نریامادہ ہونے کو امورغیبی میں شمار ہی نہیں کیاگیا۔ اسی طرح سنت میں بھی اس کی صراحت نہیں ہے کہ ’’مافی الارحام‘‘ سے مراد اس کا نریامادہ ہوناہے ۔البتہ یہ ضرور ہے کہ شکم مادر کے اندر جب بچہ تین اندھیروں میں پرورش پاتا ہے توجدید آلات سے ان اندھیروں کو زائل کیاجاسکتا ہے اوراس کی تصویر بھی لی جاسکتی ہے اوریہ کوئی بعید بات نہیں ہے ۔کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے ایسی قوی شعائیں پیداکررکھی ہیں جوان اندھیروں کوپھاڑ دیتی ہیں اور یہ واضح ہوجاتاہے کہ جنین نر ہے یامادہ ،جسم کے اندر ٹوٹے ہوئے اعضاء کو ایکسرے کے ذریعے معلوم کیاجاسکتا ہے تو جدید الٹراساؤنڈ سے اندھیرے میں تصویر بھی لی جاسکتی ہے اورایسا کرنا قرآن پاک کے خلاف نہیں ہے، اس کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ ان اطباء کاعلم محض ظن و تخمین پر مبنی ہے کوئی یقینی بات نہیں ہے۔ جبکہ قرآن پاک کادعویٰ حقیقت پرمبنی ہے۔ واضح رہے کہ عربی قواعد کے اعتبارسے ’’مَافِی الْأَرْحَامِ‘‘ روح پڑنے سے پہلے تک ہے جب اس میں روح پڑجائے تو ’’ما‘‘ کی حدود سے نکل جاتاہے، واضح رہے کہ ہمارے نزدیک قبل از وقت جنین کے متعلق معلومات حاصل کرنا کہ نر ہے یامادہ محل نظر ہے۔ کیونکہ یہ ایک فضول شوق جو بلا ضرورت ہے، اسلام ایسے فضول کاموں کی اجازت نہیں دیتا۔  [واللہ اعلم]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2،صفحہ:47

تبصرے