سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(2) شرک فی الصفات

  • 11916
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3939

سوال

(2) شرک فی الصفات

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اللہ اکبر ہے، صدیق بھی اکبر ہے، اﷲ اعظم ہے، فاروق بھی اعظم ہے، اﷲغنی ہے، عثمان بھی غنی ہے، اﷲ مشکل کشا ہے، علی مشکل کشا کیوں نہیں؟ گوخالق اپنی شان کے مطابق ہے اور مخلوق اپنی شان کے مطابق، اﷲ تعالیٰ قرآن پاک میں بادشاہ کورب کہتا ہے اگر بادشاہ رب ہے توعلی ہجویری اور جیلانی رحمہما اللہ  داتا اور غوث کیوں نہیں؟ قرآن پاک میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کا رسول(صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے فضل سے تمہیں غنی کردے گا، یعنی اﷲ تعالیٰ کے سا تھ اس کے رسول بھی فضل فرماتے ہیں تو کیا یہ کہناصحیح ہے کہ یارسول اﷲ ! فضل کریں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اﷲ تعالیٰ نے اس عالمِ رنگ وبو میں اپنی توحید قائم کرنے کے لیے متعدد کتابیں نازل فرمائیں اوربے شمار رسولوں کومبعوث کیا ،توحید یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے اسماء اور اس کی صفات، نیز اس کے حقوق واختیارات اوراحکام میں کسی مخلوق کو شریک نہ کیا جائے ، اگر کسی نے اﷲکے اسماء، اس کی صفات ،اس کے حقوق واختیارات اور احکام میں کسی مخلوق کوشریک ٹھہر ایاتو وہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں مشرک ہے اگر توبہ کے بغیر اس جہاں سے رخصت ہوا توہمیشہ کے لیے اس پر جنت حرام اور جہنم واجب ہوگئی ۔داتا ،غوث اعظم، مشکل کشا اور غریب نواز یہ سب اﷲ تعالیٰ کی صفات ہیں۔ بعض لوگ ان صفات کومخلوق میں تلاش کرتے ہیں، جیسا کہ سائل کے سوال سے واضح ہوتا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’کون ہے جوبے قرار کی پکار سنتاہے جبکہ وہ اسے پکار تا ہے اورکون اس کی تکلیف کورفع کرتا ہے اورکون ہے جوتمہیں زمین کاخلیفہ بناتا ہے کیا اﷲ تعالیٰ کے ساتھ اورکوئی اللہ بھی ہے ۔‘‘     [۲۷/النمل :۶۲]

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا سب سے بڑا فریاد سننے والا، یعنی غوث اعظم صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ ہے، عبدالقادر جیلانی نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یقیناتوہی بہت بڑی عطادینے والا ہے۔‘‘     [۳/آل عمران :۸ ]

 اس آیتِ کریمہ سے پتا چلتا ہے کہ اﷲ ہی سب سے بڑھ کر دینے والا یعنی داتاہے علی ہجویری رحمہ اللہ  داتا نہیں ہیں۔ انہوں نے توخود اپنی کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ میں اپنے متعلق داتا ہونے کی پرزور الفاظ میں تردید کی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کاارشاد ہے: ’’اے لوگو! تم سب اﷲ تعالیٰ کے درکے فقیر ہووہ اﷲ توغنی وحمید ہے۔ ‘‘    [۳۵/فاطر :۱۵]

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ ہی غریبوں کونوازنے والا ہے اس کے علاوہ اورکوئی غریب نواز نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

 ’’اگر اﷲ تعالیٰ تمہیں کسی مشکل میں ڈال دے تو اس کے علاوہ اسے کوئی دور کرنے والانہیں ہے اوراگر وہ تمہیں کوئی خیر پہنچاناچاہے تو اس کے فضل کوکوئی ہٹانے والا نہیں۔‘‘    [۱۰/یونس :۰۷ا]

اس آیت سے پتا چلتا ہے کہ تمام مشکلات حل کرنے والا، یعنی مشکل کشا صرف اﷲ تعالیٰ ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ  نہیں ہیں۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہرنماز کے بعد ایک دعا پڑھا کرتے تھے جس میں یہی مضمون بیان ہوا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے :’’اے اﷲ ! جسے تودے اسے کوئی روکنے والا نہیں اورجس سے تو روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں اورکسی صاحب حیثیت کو اس کی حیثیت تیرے مقابلے میں نفع نہیں پہنچا سکتی۔‘‘     [صحیح بخاری ،کتاب الدعوات:۶۳۳۰]

 سوال میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  کواکبر ،عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کواعظم اورحضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ  کوغنی کہاگیا ہے۔ ان حضرات کے لیے اس قسم کے القاب ہم نے خود تجویز کیے ہیں، کتاب و سنت میں ان کاکوئی ثبوت نہیں ہے ۔اس کے علاوہ اﷲ تعالیٰ کی بعض صفات ایسی ہیں کہ قرآن پاک میں ان کا اطلاق بندوں پربھی کیاگیا ہے۔ مثلاً: ﷲ تعالیٰ سمیع اور بصیر ہے توانسان کے لیے بھی سمیع اور بصیر کااطلاق ہوا ہے ۔     [۷۶/الدھر:۲]

 لیکن اﷲتعالیٰ کاسمیع وبصیر ہونا اس کی شان کے مطابق ہے اوربندے کاسمیع وبصیر ہونا اس کی شان کے لائق ہے۔ یعنی بندے کی سماعت وبصارت انتہائی محدود ہے۔ کیونکہ بندہ پس پردہ نہ کوئی چیز دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی سن سکتاہے، جبکہ اﷲ تعالیٰ ایسے عیوب ونقائص سے پاک ہے ۔اﷲتعالیٰ نے یہ بھی صراحت فرمائی ہے کہ ’’اس کی ذات وصفات میں کوئی دوسرا اس جیسا نہیں ہے۔‘‘   [۴۲/الشوریٰ: ۱۱]

سوال میں خودہی ان نفوسِ قدسیہ کی طرف ایسی صفات کاانتساب کیا گیا ہے جس کاثبوت قرآن پاک وحدیث میں نہیں ہے۔ پھر خود ہی صغریٰ کبریٰ ملاکراس سے غلط مقصد کشید کرلیا گیا کہ اﷲتعالیٰ مشکل کشا ہے تو علی  رضی اللہ عنہ مشکل کشا کیوں نہیں؟ مشکل کشا تواﷲ تعالیٰ کی صفت ہے اسے مخلوق میں کس بنیاد پرتسلیم کیاجائے۔ حضرت علی  رضی اللہ عنہ توخود مشکلات میں پھنسے رہے وہ اپنے لیے مشکل کشائی نہ کرسکے تو دوسروں کے لیے کیونکر مشکل کشا ہوسکتے ہیں۔ ارشادباری تعالیٰ ہے :

’’آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اچھا یہ توبتاؤ کہ جنہیں تم اﷲتعالیٰ کے سوا پکارتے ہو اگر اﷲ تعالیٰ مجھے نقصان پہنچانا چاہے تو کیا یہ اس کے نقصا ن کوہٹاسکتے ہیں ؟یااﷲ تعالیٰ مجھ پر مہربانی کاارادہ کرے توکیایہ اس کی مہربانی کوروک سکتے ہیں۔‘‘   [۳۹/الزمر:۳۸]

 اﷲ تعالیٰ نے اس آیتِ کریمہ میں رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم  کی پوزیشن کوواضح فرمایا ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ  رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم  کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتے ہیں کہ وہ مشکل کشا بن جائیں ۔کتاب وسنت میں اس کے لیے کوئی سند نہیں ہے۔ یہی سب خود ساختہ اورایجاد بندہ ہیں ۔بلاشبہ سورۂ یوسف میں متعدد مرتبہ بادشاہ کے لیے ربّ کالفظ استعمال ہوا ہے لیکن وہ علی الاطلاق نہیں اور اضافت کے ساتھ دونوں طرح مستعمل ہے، پھر جب بندے کے لیے اس لفظ کااستعمال ہوتا ہے تواس کی تانیث بھی کلام عرب میں مستعمل ہے، مثلاً: گھر کی مالکہ کوعربی میں ’’ربّۃ البیت‘‘ کہتے ہیں جبکہ اﷲ تعالیٰ کے لیے اس کی تانیث کااستعمال شرک اکبر ہے۔ سوال میں یہ استد لال بھی عجیب ہے کہ اگر بادشاہ رب ہے توعلی ہجویری رحمہ اللہ داتا اور شیخ عبدالقادر جیلانی  رحمہ اللہ غوث اعظم کیوں نہیں ؟یہ تو ایسا ہی استد لا ل ہے کہ ایک شخص کسی دوسرے شخص کے باپ کاہم نا م ہوتوپہلاشخص دعویٰ کردے کہ میرا باپ آپ کے باپ کی جائیداد میں برابرکاشریک ہے ۔کسی کے ہم نام ہونے کایہ معنی نہیں ہے کہ کوئی دوسرا ان کی جائیداد میں حصہ دار ہے ۔ سوال میں قرآن پاک کے حوالے سے ایک اورمغالطہ دینے کی کوشش کی گئی ہے ۔جومجرمانہ کوشش کے مترادف ہے، یعنی اﷲ تعالیٰ اوراس کا رسول اپنے فضل سے تمہیں غنی کردے گا۔ قرآنِ پاک میں اس قسم کے الفاظ قطعاًنہیں ہیں اگر ایسا سہوًا نہیں ہوا تویہ ایک ایسی تحریف ہے جس کاارتکاب یہودی کیاکرتے تھے۔ قرآنِ پاک میں ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’منافقین صرف اس بات کا انتقام لے رہے ہیں کہ انہیں اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اور اس کے رسول نے دولت مند کردیا ہے ۔ ‘‘    [۹/توبہ :۷۴]

اس آیت کریمہ سے یہ مفر وضہ کشید کیاگیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ اس کے رسول بھی فضل فرماتے ہیں تو’’یارسول اﷲ! فضل کریں‘‘ کہنا بھی صحیح ہے العیاذ باﷲ حالانکہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ اس کے رسول کاذکر اس لیے ہے کہ اس غنااورتونگری کاظاہری سبب رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات گرامی ہی بنی تھی، ورنہ حقیقت میں غنی بنانے والااﷲ تعالیٰ ہی تھا۔یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ میں جب فضل کاذکرہوا ہے تواس کے ساتھ واحد کی ضمیراستعمال ہوئی ہے ۔یعنی اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں غنی کردیا۔ دوسرے الفاظ میں فضل وکرم کرنا صرف اﷲ تعالیٰ ہی کاکام ہے، اس میں اس کے رسو ل کاذرّہ برابر بھی حصہ نہیں ہے ۔اگرایسا ہوتا تواس کے ساتھ تثنیہ کی ضمیر استعمال کی جاتی بلکہ خود رسول اﷲ  صلی اللہ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے فضل کے محتاج ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ ’’قیامت کے دن تم میں سے کسی کواس کاعمل نجات نہیں دے گا۔‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اﷲ! آپ کوبھی نہیں؟ آپ نے فرمایا کہ ’’مجھے بھی میراعمل نجات نہیں دلائے گا، ہاں اگر اﷲ تعالیٰ کافضل میرے شامل حال ہوجائے توالگ بات ہے۔‘‘     [صحیح بخاری، الرقاق: ۶۴۶۳]

نیز حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی وفات کے موقع پر جب ان کے متعلق حسن ظن کااظہار کیاگیا توآپ نے فرمایا: ’’اﷲ کی قسم! مجھے اﷲ تعالیٰ کارسول ہونے کے باوجود علم نہیں کہ قیامت کے دن میرے ساتھ کیاسلوک کیا جائے گا۔‘‘ [صحیح بخاری، المناقب :۳۹۲۹ ]

 آخر میں ہم اپنے معززقارئین اورسائلین سے یہی گزارش کریں گے کہ اسباب کے بغیر داتا، غوث اعظم، مشکل کشا اور غریب نواز صرف اﷲتعالیٰ کی ذات ہے، لہٰذا جب بھی دعا مانگو یامدد کے لیے پکارو توصرف اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو۔ [واﷲ اعلم بالصواب]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2،صفحہ:43

تبصرے