سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(172) وضوءو غسل کے بعد اعضاءکا خشک کرنا جائز ہے

  • 11912
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1050

سوال

(172) وضوءو غسل کے بعد اعضاءکا خشک کرنا جائز ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا وضوء وغسل کے بعد تولیے کا استعمال کرنا اور اعضاء کا خشک کرناجائز ہے؟اخوکم اورنگزیب


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وضوءوغسل کے بعد تولیے کا استعمال کرنا جائز ہےاسمیں کوئی حرج نہیں لیکن علماءکرام رحمہ اللہ علیہ نے اس بات میں اختلاف کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اس کا استعمال منقول ہے؟-

تو امام ابن قیم رحمہ اللہ زاد المیعاد(68/1)میں کہتےہیں:"نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو وضوء کے بعد اعضاء خشک کرنے کی عادت نہ تھی اور نہ ہی اس  کےبارے میں کوئ حدیث صحیح ثابت ہے آپ سے اس کے خلاف ثابت ہے اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث:"کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ایک کپڑا تھاجس سے وضوء کے بعد آپ خشک کیا کرتے تھے"-

اور معاذ بن جبل عنہ رضی اللہ کی حدیث"میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وضوء کرتے ہوئے دیکھا آپ نے کپڑے کے کنارے سے منہ پونچھ لیا"۔یہ دونوں حدیثیں ضعیف اور احتجاج کے قابل نہیں-پہلی حدیث میں سلیمان بن ارقم متروک ہے،اور دوسری حدیث میں الافریقی ضعیف ہے۔امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے کچھ بھی صحیح ثابت نہیں۔

ابوداؤد نے اپنی سنن(37/1)میں کہا ہے"اعمش نے کہا میں نے اس کا ذکر ابراہیم سے کیا تو انہوں نے کہا:"صحابہ تولیے کا استعمال میں کوئ حرج نہیں سمجھتے تھے لیکن اس عادت کو مکروہ سمجھتے تھے-

میں کہتا ہوں:کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے احادیث بکثرت آئی ہیں کہ آپ(اپنے آپ کو خشک نہیں کرتے تھے جیسے کہ اسکی طرف امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اشارہ کیا-

      پھلی حدیث:میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے غسل کا طریقہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں:آپ نےاپنےبدن پرپانی بہایا پھر نہانے کی جگہ سے ہٹ کر اپنے قدم دھوئے میں نے آپ کو کپڑا پکڑایا آپ نے کپڑا نہیں لیا اور ہاتھوں سے پانی جھاڑتے ہوئے چلدئے-(بخاری40/1)(مسلم:147/1)(المشکاۃ48/1)

دوسری حدیث:ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نکلے،اقامت ہو چکی تھی اور صفیں برابر ہو چکی تھیں یہاں تک کہ آپ اپنی جگہ کھڑے ہوگئے اور ہم آپ کی تکبیر کے انتظار میں تھے آپ نے فرمایا:اپنی جگہ کھڑے رہو تو ہم اپنی حالت پر رہے یہاں تک کہ آپ نکلے آپ سر سے پانی جھاڑ رہے تھے۔ بخاری(89/1)مسلم(220/1)ابوداؤد(35/1)

تیسری حدیث:ابن عباس رضی اللہ  عنہما سے مروی ہے اور اسمیں ہے،کہ عمر بن الخطابرضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا:نماز-عطاء کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ  عنہما نے کہا:پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نکلے گویا کہ میں آپکی طرف ابھی دیکھ رہا ہوں آپ کے سر سے پانی کے قطرے گر رہے تھے اور آپ نےسر کے ایک طرف ہاتھ رکھا ہوا تھا-فرمایا:"اگر میری امت پر مشقت نہ ہوتی تو انہیں حکم دیتا کہ اس نماز کو ایسے پڑھیں-الحدیث۔(مسلم229/1)

لیکن مبارکپوری رحمۃ اللہ تحفۃ الاحوذی(57/1)میں فرماتے ہیں:"اور وضوء کے بعد خشک کرنے کی احادیث ذکر کیں یہ احادیث سب ضعیف ہیں سوائے ابو مریم کی حدیث جو کسی صحابی سے روایت کرتے ہیں۔

عینی کہتے ہیں کہ یہ حدیث امام نسائی رحمۃ اللہ نے"الكني"میںبسند صحیح نکالی ہے،اگرچہ مجھے امام نسائی کی"الكني"نہ مل سکی۔پھر کہا:ابن منذر رحمۃ اللہ کہتے ہیں وضوء کے بعدتولیے کا استعمال عثمان،حسن بن علی،انس،بشیر بن مسعود نے کیا ہے اور حسن،ابن سیرین،علقمہ،الاسود،مسروق اور ضحاک نے اسکی رخصت دی ہے۔امام مالک،احمد،ثوری،اسحاق اور اصحاب رائےاسکے استعمال میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے۔راجع قول  میرے نزدیک تنشیف کا جواز ہے-

شیخ البانی رحمۃ اللہ نے صحیحہ(133/5)برقم(2099) کہا ہے:"عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتی ہیں آپکا کپڑے کا ایک ٹکڑا تھا جس کے ساتھ وضوء کے بعد منہ ہاتھ خشک کرتے تھے حدیث کا تمام سندیں ملا کر حسن ہے اور وہ تمام سندیں ذکر کی ہیں- اس بیان سے ثابت ہوا کہ دونوں کام جائز ہیں اور زیادہ محبوب میرے نزدیک خشک کرنا جائز سمجھتے ہوئے خشک نہ کرناہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص387

محدث فتویٰ

تبصرے