السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا گردن کا مسح مستحب ہے جیسے کہ رشید احمد گنگوہی نے احسن الفتاوی (2/12)میں ذکر کیا ہے اور پانچ احادیث سے استدلال کیا ہے او رآپ مسئلہ(169)میں ذکر کرتے ہیں کہ یہ مستحب نہیں بلکہ امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے۔تو ان احادیث کا کیا جواب ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ جان لو ! کہ استحباب حکم شرعی ہے جو شرعی دلیل سے ثابت ہوتا ہے اور شرعی دلیل کتاب اللہ ‘سنت صحیحہ او ر اجماہ ہے۔ اور ضعیف حدیث سے استحباب ثابت نہیں ہوتا او ر رشید احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کا کہنا کہ ان(ضعیف احادیث)سے استحباب ثابت ہوتا ہے تو انکا قول علماء مطلع کے مخالف ہے جب کوئی حدیث مختلف سندوں سے آئے سب ضعیف ہوں تو یہ حدیث حسن نہیں بن جاتی۔بلکہ حسن وہ ضعیف حدیث (کثرت طرق ) سے بنتی ہے جس کا ضعف معمولی ہو اور تمام سندوں میں ایک ہی جگہ نہ ہو –کتب مصطلح میں ان کا مرجعہ کریں ، خاص کر مقدمہ تمام المنہ ص(31)
ان کا یہ قول :’’کہ ضعیف حدیث فضائل اعمال میں قابل عمل ہوتی ہے ،علی الاطلاق درست نہیں ،گردن کا مسح مستقل شرعی حکم ہے یہ فضائل اعمال سے نہیں –
ضعیف حدیث پر عمل کرنے کی شرطیں ہیں –
1-موضوع نہ ہو –
2-عمل کرنے والے کو معلوم ہو کہ یہ ضعیف ہے –
3-اس پر عمل کرنا مشہور نہ ہو –
جیسے کہ ابن حجر نے تبیین العجب ص(403) میں اور قواعد التحدیث للقاسمی ص(114/116) میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے :’’ضعیف شدہ نہیں ہونا چاہئے –‘‘
شیخ لاسلام نے منہاج السنۃ میں کہا ہے :’’علماء کا یہ قول کہ ’’ضعیف پر عمل کیا جاسکتا ہے ‘‘ میں ضعیف مجروح مراد نہیں بلکہ اس سے مراد حسن ہے جیسے کہ منہاج السنۃ اور قواعد التحدیث (118) میں ہے –
میں کہتا ہوں :الفتاوی (18/25)میں بھی ہے ،مراجعہ کریں شرح نخبۃ الفکر ص(25)،فیض القدیر للمناوی ،اور جامع الصغیر للابانی –
جب یہ ثابت ہو چکا ہو تو اب ہم ان احادیث پر تنقید ذکر کرتے ہیں تا کہ حق واضح ہو جائے :
(1):-مصرف بن عمرو سے روایت ہے وہ اسے پہنچاتے ہیں کعب بن عمر تک ،وہ کہتے ہیں ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضوء کرتے ہوئے دیکھا تو آپ نے اپنی داڑھی کا اور گردن کا گدی تک مسح کیا –‘‘
ابن السکن نے اسے کتاب الحروف میں نکالا – اس حدیث کو ابوداؤد نے (1/19) اور احمد نے نکالااور اس کی سند ضعیف ہے اس میں لیث بن سلیم راوی کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے جیسے کہ نووی نے تہذیب الاسماء واللفات میں کہا –
اور مصرف بن عمرو مجہول ہے جیسے کہ ابن القطان نے کہا ،جیسے کہ نیل الاوطار (1/203)مین ہے :امام احمد اور ابن عیینہ نے اسے ضعیف کہا ہے جیسے کہ ابو داؤد میں ہے –جب کہ ابو داؤد کی روایت میں لفظ ’’القذال ‘‘ کا ہے اور وہ کردن کے مسح پر دلالت نہیں کرتا –
(2)-ابو نعیم نے تاریخ اصفہان میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو وضوء کرے اور گردن کا مسح کرے تو قیامت کے دن طوق پہنائے جانے سے بچ گیا ‘‘-اور اس کی سند میں محمد بن عمرو الانصاری ضعیف ہے جیسے کہ نیل الاوطار (1/203) میں ہے اور حدیث موضوع ہے جیسے کہ السلسلہ (2/167)برقم (744) میں ہے –
(3)-ابو عبید ہ نے کتاب الطہور میں عبد الرحمن بن مہدی سے روایت کیا ہے ،وہ اسے موسی بن طلحہ تک پہنچاتا ہے وہ کہتا ہے کہ جس نے سر کے ساتھ گدی کا مسح کیا نو قیامت کے دن وہ طوق سے بچ گیا –
عینی نے شرح الہدایہ میں کہا ہے :یہ حدیث اگرچہ موقوف ہے لیکن اسے رفع کا حکم حاصل ہے کیو نکہ اس میں رائے کی گنجائش نہیں-
میں کہتا ہوں :آپ کو کس نے کہا کہ موسی بن طلحہ صحابی ہے بلکہ وہ تابعین یا اتباع تابعین میں سے ہے تو آپ کے قول کے مطابق تمام روایتیں اور تابعین کے اقوال جس میں رائے کی کوئی گنجائش نہ ہو وہ اقوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہو گئے ،اور اس قول کا فساد اللہ ہی جانتا ہے ،باقی سند پر نظر ڈالیں اور یہ تلخیص الحہیر (1/92) میں ہے اور السلسلہ (1/98) میں یہ ہے کہ اس کی سند میں المسعودی ہے اور وہ مختلط تھا –(برقم :69-744)
(4)-مسند الفردوس میں دیلمی نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث مرفوعا روایت کی ہے :’’گردن کا مسح قیامت کے دن طوق سے امن کا سبب بنے گا‘‘-
مین کہتا ہوں: یہ حدیث اور دوسری حدیث ایک ہی ہیں اس کے ساتھ اس کی سند بہت ضعیف ہے جیسے کہ الموضوعات الکبری ص(63) میں ہے کیونکہ اس کی علت محمد بن عمرو الانصاری ہے اور وہ ابو سہل البصری ہے جس کے ضعف پر اتفاق ہے اسی لئے امام نووی نے اسے موضوع کہا ہے –
گردن کا مسح کرنا بدعت ہے –
امام ابن قیم نے زاد المعاد (1/28) میں کہا ہے :’’گردن کے مسح کی کوئی حدیث نہیں ،گردن کے مسح میں سرے سے کوئی حدیث ثابت نہیں ‘‘-
امام ابن تیمہ رحم اللہ الفتاوی (21/127) میں کہتے ہیں :’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ صحیح ثابت نہیں کہ آپ نے اپنے وضوء میں گردن کا مسح کیا ہو ،نہ ہی کسی صحیح حدیث میں اس کی روایت ہے –بلکہ وہ صحیح احادیث جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وضوء بیان ہوا ہے ،مین یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گردن کا مسح نہیں کیا ،اسی لیے مالک،شافعی ، احمد وغیرہ جمہور علماء نے اسے مستحب نہیں سمجھا اور جو اسے مستحب سمجھتا ہے اس کا اعتماد اس اثر پر ہے جو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے یا حدیث جس کی نقل ضعیف ہے –
کہ آپ نے سر کا مسح کیا یہاں تک کہ گدی تک پہنچے ،اس جیسی روایتوں پر اعتماد کرنا صحیح نہیں ،اور نہ یہ ثابت احادیث کے معارض ہوسکتا ہے –اگر کوئی گردن کا مسح ترک کر دے تو اس کا وضوء باتفاق علماء صحیح ہے ،واللہ تعالی اعلم –
تو ثابت ہوا اس شخص کا قول ضعیف اور بلا دلیل ہے جو گردن کے مسح کی سنت یا استحباب کا کہتا ہے۔
دلیل کے تابعدار پر لازم ہے کہ وہ گردن کا مسح نہ کرے ‘اور حاشیوں اور فتووں کا بلا تحقیق تابعدار جو چاہے کرتا پھرے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب