السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ان دوآیتوں کاشان نزول کیا ہے؟
﴿إِنَّ الدّينَ عِندَ اللَّهِ الإِسلـٰمُ ۗ وَمَا اختَلَفَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ إِلّا مِن بَعدِ ما جاءَهُمُ العِلمُ بَغيًا بَينَهُم ۗ وَمَن يَكفُر بِـٔايـٰتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَريعُ الحِسابِ ﴿١٩﴾... سورة آل عمران
﴿فَلا تُطِعِ المُكَذِّبينَ ﴿٨﴾ وَدّوا لَو تُدهِنُ فَيُدهِنونَ ﴿٩﴾ وَلا تُطِع كُلَّ حَلّافٍ مَهينٍ ﴿١٠﴾ هَمّازٍ مَشّاءٍ بِنَميمٍ ﴿١١﴾ مَنّاعٍ لِلخَيرِ مُعتَدٍ أَثيمٍ ﴿١٢﴾ عُتُلٍّ بَعدَ ذٰلِكَ زَنيمٍ ﴿١٣﴾ أَن كانَ ذا مالٍ وَبَنينَ ﴿١٤﴾... سورة القلم
نیز یہ بھی فرمائیں کہ ان دونوں آیتوں کا مفہوم کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
: پہلی آیت یعنی ﴿إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّـهِ الْإِسْلَامُ ﴾ کےیہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کےنزدیک مقبول اور پسند یدہ دین اسلام ہے۔یاد رہے کہ دین سےمراد کبھی عمل ہوتا ہے اور کبھی عمل کی جزا ۔ دین سے مراد عمل کی مثال یہ آیت کریمہ ہے:
﴿وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا...٣﴾... سورة المائدة
’’ اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔ ۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿ إِنَّ الدّينَ عِندَ اللَّهِ الإِسلـٰمُ...﴿١٩﴾... سورةآل عمران
’’اور دین تو اللہ کےنزدیک اسلام ہے۔‘‘
اور دین سےمراد عمل جزاکی مثالیں حسب ذیل آیات ہیں:
﴿ مـٰلِكِ يَومِ الدّينِ ﴿٤﴾... سورةالفاتحة
نیزفرمایا:
﴿كَلّا بَل تُكَذِّبونَ بِالدّينِ ﴿٩﴾... سورة الانفطار
’’ ہرگز نہیں بلکہ تم تو جزا وسزا کے دن کو جھٹلاتے ہو ۔‘‘
نیز اشاد الہی ہے:
﴿وَيلٌ يَومَئِذٍ لِلمُكَذِّبينَ ﴿١٠﴾ الَّذينَ يُكَذِّبونَ بِيَومِ الدّينِ ﴿١١﴾... سورة المطففين
’’ اس دن جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہے - جو جزا وسزا کے دن کو جھٹلاتے رہے ۔‘‘
پس اللہ تعالیٰ کےنزدیک عمل مقبول اسلام ہےاور اسلام کے معنی ظاہری باطنی طور پر اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت وفرماں برداری اوریہ اس اسلام خاص کوبھی مشتمل ہے جو حضرت محمدﷺ اور آپ کی امت کا دین ہے اور اسلام عام کو بھی جو تمام انبیاء کرام کا دین ہے کیونکہ ہر وہ دین جو پہلے سے قائم ہو وہ اللہ ہی کا دین اسلام ہی ہوتا ہے۔ حتی ٰ کہ نئی شریعت آجائے جو اسے منسوخ کردے۔ یہ آنے والی نئی اورتاریخ شریعت دین اسلام بن جاتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کےنزدیک یہی مقبول ہوتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ﴿إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّـهِ الْإِسْلَامُ ﴾ جس طرح عمومی طور پر دین کے اصول و فروع پر مشتمل ہے‘ اسی طرح یہ دین کی جزئیات پر بھی محیط ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کےنزدیک وہ عمل مقبول ہوگا جو اسلام کے مطابق ہوگا جیساکہ اسی طرح یہ دین کی جزئیات پر محیط ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کےنزدیک وہ عمل مقبول ہوگا جو اسلام کی مطابق ہوگا جیساکہ اس صحیح حدیث سےثابت ہے جو حضرت عائشہ سےمروی ہےکہ نبیﷺ نےفرمایا:
«مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ»صحیح مسلم الاقضيه باب نقض الاحكام الباطنه ورد محدثات الامور حديث:1718
’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہماراامر نہیں ہے تو وہ (عمل) مردود ہے۔‘‘
یہ مذکورہ بالاآیت کریمہ گویا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسلام کے سوا دیگر دین اللہ تعالیٰ کےہاں غیر مقبول ہیں خواہ ان کےمطابق عمل کرنے والے کیسے ہی کیوں نہ کریں خواہ ان کا تعلق دین یہود سےہویا نصاریٰ سے یاکسی بھی دوسرے دین سے کہ وہ اللہ تعالیٰ نے اپنےبندوں کےلیےمقر فرمایا ہے۔ جو شخص دین اسلام اور دیگر ادیان کویکساں قرار دے اور کہے کہ یہ سب ادیان اللہ تعالیٰ کےنزدیک مقبول او رپسندیدہ ہیں تو وہ کافر ہے۔ اس توبہ کا مطالبہ کیاجائےگا۔ اگر توبہ کرلے تو بہتر ورنہ اس کی سزا قتل ہے کیونکہ اس دین نےجسےعطا کرکے اللہ تعالیٰ نےحضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا سابقہ تمام ادیان کو منسوخ کردیا ہے اور اب اللہ تعالیٰ اس دین کے سوااور کسی دین کو ہرگز پسند نہیں فرمائے گا کیونکہ اس نے فرمایا ہے:
﴿وَمَن يَبتَغِ غَيرَ الإِسلـٰمِ دينًا فَلَن يُقبَلَ مِنهُ وَهُوَ فِى الءاخِرَةِ مِنَ الخـٰسِرينَ ﴿٨٥﴾... سورةآل عمران
’’ جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا ۔‘‘
دوسر آیت کریمہ جس کےبارےمیں سائل نےپوچھا ہےوہ یہ ہے:
﴿وَلا تُطِع كُلَّ حَلّافٍ مَهينٍ ﴿١٠﴾ هَمّازٍ مَشّاءٍ بِنَميمٍ ﴿١١﴾... سورة القلم
’’ اور تو کسی ایسے شخص کا بھی کہا نہ ماننا جو زیاده قسمیں کھانے والا- بے وقار، کمینہ، عیب گو، چغل خور ۔‘‘
سائل نے ان آیات کےشان نزول کےبارےمیں پوچھا ہےتو مجھے نہیں معلوم کہ یہ آیات کسی خاص سبب کی وجہ سے نازل ہوئی ہیں۔ البتہ ان آیات میں یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنےنبی حضرت محمد ﷺ کو منع فرمادیا ہے کہ وہ ایسے شخص سےکہے میں نہ آئیں جس میں یہ صفات موجود ہوں جو ان آیات میں مذکو ر ہین یعنی ﴿كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ﴾ جو بہت قسمیں کھانے والا ذلیل اوقات ہو کیونکہ فی نفسہ ذلیل ومہیں ہوتا ہے اور اس کی بات کو اس لیے وقت تک سچا نہیں مانا جاتا جب تک وہ قسم نہ کھالے۔﴿هَمَّازٍ مَّشَّاءٍ بِنَمِيمٍ﴾ طعن آمیز اشارتیں کرنےوالا چغلیاں لیے پھرنے والا‘‘(ھماز) اس شخص کو کہتے ہیں جو کثیر الغیبت اور نمیمت میں فرق یہ کہ غیبت تویہ ہےکہ کسی انسان کا اس کی عدم موجودگی میں اس طرح ذکر کیا جائے جو اسے ناپسند ہو نمیمت کے معنی ہیں لوگوں کےباہمی تعلقات کو خراب کرنا اور ان میں فتنہ وفساد برپا کرنے کےلیے کوشش کرنا مثلا ایک شخص دوسرے سےیہ کہے کہ فلاں شخص آپ کےبارے میں یہ یہ باتیں کرتا تھا۔ آپ کو گالی دیتا تھا برابھلا کہتا تھا آپ کی یہ عیب جوئی کرتا تھا اور وہ یہ باتیں اس لیےکرے تاکہ دونوں میں دشمنی اور عداوت ڈال دے۔ حدیث سےثابت ہے کہ نبی ﷺ نےفرمایا:
«لایدخل الجنة نمام»صحيح البخاري الادب باب مايكره من النميمة ح:6056وصحیح مسلم الایمان باب بیان غلظ تحریم النمیمة ح:105 والفظ له
’’چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘
﴿مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ﴾ ’’مال مي، بخل كرنىوالا ‘ حدسے بڑھا ہوابدکار ‘‘ یعنی اس میں نہ صرف یہ کہ خود کوئی خیر نہیں ہےبلکہ وہ خیر دوسر ے بھی روکتا ہے۔(معتعد) کے معنی ہین کہ وہ مخلوق پرزیادتی کرتا ہے۔ یعنی اس میں یہ دونوں خرابیاں ہیں کہ وہ مخلوق سےخیر کو روکتا بھی ہے اور مخلوق پر زیادتی کرتا ہےاوریہ ظلم کی انتہا ء ہوتی ہے۔ اسی لیے تو فرمایا کہ خرابیاں ہیں کہ وہ مخلوق سےخیر کوروکتا ہے بھی اور مخلوق پر زیادتی بھی کرتا ہےاوریہ ظلم کی انتہا ہوتی ہے۔ اسی لیے توفرمایا کہ (معتد اثیم) کی وہ عداوت و دشمنی پید کرنےوالی اپنی ان معصیتوں اور خیر سے لوگوں کو منع کرنے کی وجہ سے بڑا گناہ گار ہے۔﴿ عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ﴾ عتل کے معنی انتہائی سنگ دل اور متکبر شخص کے ہوتےہیں اور(زنیم) اسے کہتے ہیں جواپنےشرکی وجہ سے لوگوں میں معروف ہو۔’’زنیم‘‘ اس کی علامت کو کہتےہیں جو جانور کی گردن میں ہو۔
﴿أَن كانَ ذا مالٍ وَبَنينَ ﴿١٤﴾ إِذا تُتلىٰ عَلَيهِ ءايـٰتُنا قالَ أَسـٰطيرُ الأَوَّلينَ ﴿١٥﴾... سورة القلم
’’ اس کی سرکشی صرف اس لیے ہے کہ وه مال والا اور بیٹوں والا ہے - جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہہ دیتا ہے کہ یہ تو اگلوں کے قصے ہیں ۔‘‘
یعنی اس شخص کےپاس چونکہ مال اوربیٹے تھے اس لیے یہ مال وغیرہ کی وجہ سے فریب خورد ہوگیا اس نےسرکشی اور بغاوت کی روش اختیار کرلی ہے اور جب اسے اللہ تعالیٰ کی آیات پرھ کرسنائی جاتی ہیں تویہ کہتا ہے کہ یہ اگلے لوگوں کےقصے کہانیاں ہیں اس لیے قرآن کریم جس حسن وجمال اور عظیم معافی جن کےآداب عالیہ اخلاق فاضلہ قصص نافعہ اور اخبار صادقہ پر مشتمل ہےانہیں اس بات کو دل سے قبول کرلیجئے کہ گناہ جس شخص کے دل کو زنگ آلود کردیں اس کا نور حق اورہدایت سے نیز قرآن عظیم کے شفاء اور نور سے محروم ہوجاتا ہے جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿كَلّا إِنَّ كِتـٰبَ الفُجّارِ لَفى سِجّينٍ ﴿٧﴾ وَما أَدرىٰكَ ما سِجّينٌ ﴿٨﴾ كِتـٰبٌ مَرقومٌ ﴿٩﴾ وَيلٌ يَومَئِذٍ لِلمُكَذِّبينَ ﴿١٠﴾ الَّذينَ يُكَذِّبونَ بِيَومِ الدّينِ ﴿١١﴾ وَما يُكَذِّبُ بِهِ إِلّا كُلُّ مُعتَدٍ أَثيمٍ ﴿١٢﴾ إِذا تُتلىٰ عَلَيهِ ءايـٰتُنا قالَ أَسـٰطيرُ الأَوَّلينَ ﴿١٣﴾ كَلّا ۖ بَل ۜ رانَ عَلىٰ قُلوبِهِم ما كانوا يَكسِبونَ ﴿١٤﴾... سورة المطففين
’’ یقیناً بدکاروں کا نامہٴ اعمال سِجِّينٌ میں ہے - تجھے کیا معلوم سِجِّينٌ کیا ہے؟- (یہ تو) لکھی ہوئی کتاب ہے - اس دن جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہے - جو جزا وسزا کے دن کو جھٹلاتے رہے - اسے صرف وہی جھٹلاتا ہےجو حد سے آگے نکل جانے والا (اور) گناه گار ہوتا ہے - جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہہ دیتا ہے کہ یہ اگلوں کے افسانے ہیں- یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کےاعمال کی وجہ سے زنگ (چڑھ گیا) ہے ۔‘‘
اس نےآیات کو اگلے لوگوں کے افسانے اس لیے قرار دیا کہ ان میں جو نور شفاء اور ہدایت ہے وہ اس کے دل تک نہیں پہنچی کیونکہ گناہوں اور معصیتوں کی وجہ سے اس کےدل پر زنگ لگ چکا ہےاورجب انسان اللہ تعالیٰ کی آیات سے ہدایت حاصل کرے تو اس کے ہدایت اورنور میں اضافہ ہوجاتا ہے جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَالَّذينَ اهتَدَوا زادَهُم هُدًى وَءاتىٰهُم تَقوىٰهُم ﴿١٧﴾... سورة محمد
’’ اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں اللہ نے انہیں ہدایت میں اور بڑھا دیا ہے اور انہیں ان کی پرہیزگاری عطا فرمائی ہے ۔‘‘
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَيَزيدُ اللَّهُ الَّذينَ اهتَدَوا هُدًى...﴿٧٦﴾... سورة مريم
’’ اور ہدایت یافتہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت میں بڑھاتا ہے ۔‘‘
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب