سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(161) سر کا مسح تین بار کرنے کا حکم

  • 11893
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2145

سوال

(161) سر کا مسح تین بار کرنے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سنت مطہرہ میں سر کا مسح تین بار کرنے کا کہا حکم ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وہ احادیث صحیحہ جن میں نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم  کے وضوء کا طریقہ بیان ہوا ہے ان میں مسح ایک ہی بار ہے۔ اسی لئے امام ابن قیم نے زاد المعاد (1/87) میں کہا ہے :’’صحیح یہی ہے کہ سر کا مسح مکرر نہیں ہے بلکہ جب اعضاء کو مکرر بار دھوتے تو مسح سر کا ایک ہی بار کرتے ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے صریحا اسی طرح آیا ہے اور اس کے خلاف آپ سے بالکل ثابت نہیں،بلکہ اس کے علاوہ یاتو صحیح غیر صریح ہے جیسے صحابی کا قول :’’وضوء کیا تین بار ‘‘اور جیسے اس کا کہنا :’’مسح کیا سر کا دوبار‘‘ یا پھر صریح لیکن غیر صحیح ہے –

جیسے حدیث بیلمانی کی وہ اپنے والد سے وہ عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’جس نے وضوء کیا اور ہاتھ دھوئے تین بار پھر کہا اور سر کا مسح کیا تین بار‘‘تو یہ حجت نہیں کیونکہ ابن البیلمانی اور اسکا والد وونوں ضیعیف ہیں اگرچہ والد اس سے نسبت اچھے حال والا ہے۔اور جیسے حدیث عثمان کی جسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے :’’انہوں (رضی اللہ عنہ) نے سر کا مسح تین بار کیا(231) اور ابو داؤد کہتے ہیں کہ عثمان کی تمام صحیح احادیث  دلالت کرتی ہیں کہ سر کا مسح ایک بار ہے اور اسی طرح کہا انکے علاوہ دوسروں نے ۔

میں کہتا ہوں :بلکہ عثمان کی حدیث تین سندوں سے آئی ہے‘دو سندیں ابوداؤد میں ہیں اور وہ حسن ہیں ۔مراجعہ کریں :رقم الحدیث(107)

حمران سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں عثمان بن صفوان کو وضوء کرتے دیکھا‘اور اسمیں ہے کہ انہوں نے سرکا مسح تین بار کیا۔

حافظ نے فتح الباری میں کہا ہے کہ ابو داؤد نے دو سندوں سے روایت کیا ہے عثمان کی ایک حدیث میں تین بار سر کا مسح کرنے کو ابن خزیمہ وغیرہ نے صحیح  کہا ہے اور ثقہ کی زیادت مقبول ہے۔

اور تلخیص الحبیر(1/85) میں ذکر ہے کہ ابن الجوزی کشف المشکل میں تکرار کی تصحیح کی طرف مائل ہیں۔

میں کہتا ہوں کہ یہی حق ہے کیونکہ ایک بار کی روایتیں اگرچہ بہت ہیں لیکن تین بار کی روایت کے معارض نہیں کیونکہ بات اسکے (تثلیث) سنت ہونے میں ہے اور یہ تو  کبھی کیحجاتی اور کبھی ترک کی جاتی ہے۔الصنعانی نے سبل السلام (1/44)میں اسے اختیار کیا  ہے جسے تمام المنہ ص(91) میں ہے۔

ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے تابعین کی ایک جماعت سے تثلث مسح روایت کیا  ہے جیسے ابراہیم  التیمی ‘سعید بن جبیر‘عطاء ‘زاذان اور میسرہ (رحمہم اللہ)اور بطریق ابی العلاء قتادہ نے انس سے بھی وارد کیا  ہے۔جیسے کہ تلخیص میں ہے۔

امام دار قطنی نے اپنی سنن (1/89) میں کہا ہے :ہمیں حدیث سنائی محمد بن محمود الواسطی نے انہیں حدیث سنائی شعیب بن ایوب نے انہیں حدیث سنائی ابو یحیٰ الحمانی  نے انہیں حدیث سنائی ابو حنیفہ نے انہیں حدیث سنائی حسن بن سعید المروزی نے وہ کہتے ہیں میں نے اپنے دادا کی تحریر میں  ابو یوسف قاضی سے لکھا پایا وہ کہتے ہیں انہیں حدیث سنائی ابو حنیفہ نے  خالد بن علقمہ سے وہ  عبد خیر سے وہ علی رضی اللہ عنہ سے ‘انہوں نے وضوء کیا اور ہاتھ دھوئے اور اسمیں ہے کہ سر کا مسح تین بار کیا۔الحدیث۔

پھر دارقطنی نے کہا کہ ابو حنیفہ نے ثلاثاً کہکر ثقات کی مخالفت کی ۔پھر ص(91) میں کہا کہ تثلیث کی دلیل ‘پھر احادیث ذکر کی ہیں۔مراجعہ کریں۔

اور ہدایہ (1/21) میں ہے:تثلیث مشروع ہے لیکن ایک ہی پانی سے ‘بمطابق ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کی روایت کے ‘اور امام بیہقی نے (1/62-64) میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ وہ سر کا مسح تین بار کیا کرتے تھے اور ہر بار نیا پانی لیتے تھے تو گزشتہ بیان سے ثابت ہوا کہ سنت صحیحہ مسح کا ایک بار کرنا ہے اور کبھی کبھی تین بار کرنا بھی جائز ہے کیونکہ عثمان رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص370

محدث فتویٰ

تبصرے