سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(157) وضوء کرتے ہوئے باتیں کرنا جائز ہے

  • 11887
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2489

سوال

(157) وضوء کرتے ہوئے باتیں کرنا جائز ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا وضوء کے دوران باتیں کرنا جائز ہیں؟کراہت کی کیا دلیل ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

باتیں دو قسم کی ہیں:اچھی اور بری۔

تو اچھی باتیں وضوءاور غیر وضوء میں اچھی ہیں اور بری باتیں وضوء  اور غیر وضوء میں بری ہیں اور جو وضوء میں اچھی اور مباح   باتیں کرنے کو حرام یا مکروہ کہتا ہے اس کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں۔

شاید اس کا خیال ہو  کہ وضوء میں لوگ کچھ دعائیں پڑھتے ہیں تو باتوں کی وجہ سے وہ فوت ہو جائیں گی تو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ سوائے تین دعاؤں کے باقی کوئی بھی ثابت نہیں ۔تو کسی  کے لیے  دلیل کے بغیر کسی چیز کو مکروہ سمجھنا جائز نہیں‘کیونکہ یہ شریعت ہے اور اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر شریعت اپنے پاس سے بنانا حرام ہے۔

بلکہ بہت سی صحیح احادیث ہیں جن سے وضوء کے دوران باتیں کرنا جائز  ثابت ہوتا ہے۔

بعض احادیث ذکر کی جاتی ہیں:

اول :عمرو  بن العاص رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے پیغام بھیجا کہ مسلح ہو کر تیاری کر کے میرے پاس آئیں میں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  وضوء فرما رہے تھے تو فرمایا:’’اے عمرو ! میں آپ کو کسی مہم پر بھیجنا چاہتا ہوں اور ایسی مہم پر بھیجوں گا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحیح سلامت غنیمت سمت واپس لائے گا‘اور میں آپ کو مال کا کچھ حصہ دونگا‘‘تو میں نے کہا اے اللہ کے رسول!( صلی اللہ علیہ وسلم )میں نے ہجرت مال کے لیے تو نہ کی تھی میری ہجرت تو صرف اللہ اور اس کے رسول کیلئے تھی۔تو آپ نے  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:’’اچھا مال نیک آدمی کے لیے اچھی  چیز ہے‘‘- (احمد(4/197-202) بغوی شرح السنہ ‘المشکاۃ (2/326) للخطیب بسند صحیح۔

دوم:ام ہانیء بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ‘وہ کہتی ہے کہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس فتح  کے سال گئی تو آپ غسل فرما رہے تھے  اور فاطمہ رضی اللہ عنہا آپکی بیٹی کپڑے سے پردہ کئے ہوئی تھیں‘میں نے سلام کیا تو فرمایا:’’یہ کون ہے؟‘‘میں نے کہا :میں ام ہانیء بنت ابی طالب ہوں‘تو فرمایا:’’ام ہانیء کو مرحبا ہو‘‘-جب غسل سے فارغ ہوئے تو میں نے کہا............یہ حدیث صحیح ہے جو غسل کرتے ہوئے بات کرنے کے جواز پر دلالت کررہی ہے تو وضوء میں کیسے جائز نہ ہو۔

(بخاری1/42)مسلم (1/249)المشکاۃ باب الامان (2/377)

سوم:مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ غزوہ تبوک پر گئے تھے‘مغیرہ کہتے ہیں :رسو ل اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  فجر کے وقت قضائے حاجت کے لیے گئے میں آپ کے ساتھ برتن اٹھا لایا جب آپ واپس آئے تو میں آپکے  ہاتھوں پر  انڈیلا تو آپنے ہاتھ دھوئے ‘منہ دھویا اور آپ نے اونی جبہ پہن رکھا تھا‘آپ نے آستین چڑھانی چاہیں تو آستین کی تنگی کی وجہ سے  ہاتھ جبے کے نیچے سے نکالے اور جتہ کندھوں پر رکھا۔اور ہاتھ دھوئے اور پھر پیشانی اور پگڑی کا مسح کیا‘پھر میں موزے اتارنے کے لیے جھکا تو آپ نے فرمایا:’’انہیں چھوڑ دو !میں نے پاؤں بحالت طہارت اسمیں داخل کیے تھے‘‘اور ان پر مسح کیا۔الحدیث۔ (بخاری1/40)مسلم  (1/48) المشكاة (1/48)

امام نووي رحمہ اللہ تعالیٰ  شرح مسلم (1/249)  میں حدیث ام ہانیء کے تحت کہتے ہیں :اس حدیث سے انسان کا اپنے ملاقاتی کو   مرحبا کہنے کا  استحباب ثابت ہوتا ہے اور اس حدیث میں دلیل ہے کہ بحالت غسل اور بحالت وضوء باتیں کرنے او رسلام کہنے میں کوئی حرج نہیں ۔

بخلاف پیشاب کرنے والے کے ۔

پنجم:مسلم(1/383-384) کی حدیث جو ابن عباس رضی اللہ عنہما اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان دونوں کا غسل محرم کے بارہ میں  اختلاف ہوا‘ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ محرم غسل کر سکتاہے اور مسور کہتے تھے کہ محرم سرنہیں  دھو سکتا۔پھر مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ابو ایوب انصاری کے پاس اس مسئلے کے بارے میں پوچھنے کے لیے بھیجاتو وہ    کنویں کی دو لکڑیوں کے درمیان پردہ کر کے غسل کر رہے تھے‘میں نے سلام کیا تو انہوں نے کہا:کون ہے؟میں نے کہا میں عبد اللہ بن حنین ہوں اور مجھے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آپ کے پاس  یہ پوچھنے کے لیے بھیجا ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  بحالت احرام کیسے غسل فرماتے تھے؟۔ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے کپڑے پر ہاتھ رکھ کر اسے نیچے کیا یہاں تک کہ انکا سر مجھے نظر آنے لگا تو پھر کسی کو پانی ڈالنے کا کہا اور اپنے ہاتھوں سے سر کو حرکت دی اور آگے پیچھے کیا‘پھر کہا‘میں نے انہیں اسطرح کرتے ہوئے دیکھا‘‘-

امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ  شرح مسلم میں فرماتے ہیں:اس حدیث میں فوائد ہیں:ایک انمیں سے یہ ہے کہ وضوء و غسل کرنے والے کو سلام کہا جا سکتا ہے بخلاف قضائے حاجت کرنے والے کے۔

احادیث اس مضمون کی بکثرت ہیں‘انصاف پسند کے لیے اتنی ہی کافی ہیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص358

محدث فتویٰ

تبصرے