سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(154) وضوء کے شروع میں (بسم اللہ ) کے الفاظ

  • 11883
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2547

سوال

(154) وضوء کے شروع میں (بسم اللہ ) کے الفاظ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سنت مطہرہ میں وضوء کرتے وقت تسمیہ کن لفظوں سے ادا کیا جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ابن السنی نے ’’عمل الیوم اللیلۃ ‘‘رقم(27) میں بسند صحیح نقل کیا ہے انس بن مالک سے وہ کہتے ہیں کہ صحابہ میں سے کسی نے وضوء کا پانی مانگا ‘تو رسو ل اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:’’تم میں سے کسی کے پاس پانی ہے؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے برتن میں اپنا ہاتھ رکھا اور  فرمانے لگے بسم اللہ کہکر وضوء کرو‘‘- تو میں نے دیکھا کہ آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی نکل  رہا تھا‘یہاں تک کہ سب نے وضوءکر لیا  میں نے انس رضی اللہ عنہ کو کہا‘’’تمہارا کیا خیال ہے وہ کتنے تھے؟تو انہوں نے کہا ستر کے قریب تھے۔اور اس پر باب باندھا ہے’’یہ باب وضو ء کے تسمیہ کی کیا کیفیت ہے؟‘‘ نسائی(1/18)رقم (76) بیہقی(1/43) دار قطنی(1/71)

دوسری حدیث:ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:اے ابو ہریرہ ! جب تو وضوء کرنے لگے تو کہہ’’بسم اللہ  والحمد للہ‘‘۔تیرے محافظ فرشتے تیرے لئے نیکیاں لکھتے رہیں گے جب تک تیرا یہ وضوء ٹوٹ نہیں  جاتا۔

طبرانی صغیر(73) المجمہ للھیثی(1/220) اور اس کی سند کو حسن کہا۔

اور رد المختار (1/74)  میں ہے:اور سند اسکی حسن ہے۔

دیکھنا چاہیے کہ واقعی اسی طرح ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اس باب کی صریح احادیث معلول ہیں اور انمیں کسی کی سند بھی اعتراض سے خالی نہیں تو اس کلیے سے اس کی سند کی تضعیف ہوتی ہے او رصریح کا لفظ اس لئے کہا کہ پہلی حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن غیر صریح ہے اور تحفۃ الاحوذی(1/37)  میں ہے اس باب کی احادیث یا حسن صریح ہیں یا صحیح غیر  صریح ہیں۔

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے ’’ان احادیث کے مجموعے سے قوت پیدا ہوتی ہے جو  اس کی اصلیت پر دلالت کرتی ہے۔

پھر کہتے ہیں کہ ’’ولی اللہ الدہلوی حجۃ اللہ البالغہ میں کہتے ہیں :یہ(حدیث ابو ہریرہ) نص ہے کہ  تسمیہ رکن ہے یا شرط۔

اور مطالب عالیہ لابن حجر (1/25) رقم(81) میں :علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے ‘وہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’اے علی!جب تو وضوء کرے تو کہہ:اللہ کے نام کے ساتھ‘اے اللہ !میں تجھ سے اس وضوءکا اتمام چاہتا ہوں ‘اور اتمام نماز اور اتمام تیری رضا کا اور اتمام تیری مغفرت کا تو یہ زکاۃ ہے وضو ءکی۔یہ حدیث حارث کی ہے‘جس میں بہت زیادہ ضعف ہے۔

اور فقہاء کا یہ قول جو مذکور ہے ’’وضوءکرنے والا   تسمیہ کہکر شروع کرے اور یہ(تسمیہ) ہو ذکر سے حاصل ہو جاتا ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہ وارد ہے’’بسم اللہ العظیم والحمد للہ علی دین الاسلام‘‘ جیسے کہ رد المختار میں ہے۔

تو ان سے ذرا اس کی سند اور مخرج کا پوچھیں جو ند ارد۔

اور بعض نے تعوذ کا اضافہ بھی کیا ہے جیسے مذکورہ مصدر میں ہے تو ثابت ہوا کہ سنت یہی ہو کہ شروع وضوء میں ’’بسم اللہ‘‘ صرف کہے یا’’بسم اللہ الرحمان الرحیم‘‘ اور اسکے علاوہ جو بھی ہے میرے علم کے مطابق اس کی صحیح سند نہیں۔مراجعہ کریں المجموع(1/344)اور المغنی (1/115) میں ہے اور تسمیہ سے مراد’’بسم اللہ‘‘کہنا ہے‘اس کا قائمقام کوئی دوسرا نہیں جیسے کہ ذبیحے کا مشروع تسمیہ ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص355

محدث فتویٰ

تبصرے