سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(150) زمین ‘مو زے اور کتے کا جھوٹا کیا ہوےبرتن کو پاک کرنے کا طریقہ۔

  • 11875
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2721

سوال

(150) زمین ‘مو زے اور کتے کا جھوٹا کیا ہوےبرتن کو پاک کرنے کا طریقہ۔

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زمین اور موزے کو پاک کرنے اور اسی طرح کتے کا جھوٹا برتن پاک کرنے کا طریقہ کیا ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زمین تو پانی سے پاک ہو جاتی ہے جیسے کہ صحیح  حددیث سے ثابت ہے ‘انس سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ مسجد میں تھے کہ ایک ویہاتی آیا  اور مسجد میں  کھڑے ہو کر پیشاب کرنے لگا ۔ صحابہ کرام نے اسے روکا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا چھوڑو’اسکا پیشاب مت روکو ‘‘تو انہوں نے اسے چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ پیشاب کرکے فارغ ہو گیا ۔اور اس حدیث میں ہے : آپ ﷺ نے ایک شخص کو حکم دیا وہ پانی کا ایک ڈول لایا ‘آپنے اس پر بہا دیا۔(بخاری1/35ومسلم1/138وابوداؤد1/61)۔اس حدیث میں دلیل ہے کہ پلید زمین پر پانی بہا دینے سے وہ پاک ہو جاتی ہے  اور اسے کھودنا  شرط نہیں اور نہ ہی بتکرار دھونا  اگر نجاست باقی نہ رہ گئی ہو۔تو زمین کھودنے  کا ذکر جس حدیث میں آتا ہے وہ ضعیف ہے ۔ اور بعض علماءنے کہا  ہےکہ زمین خشک ہو جانے سے بھی پاک ہو جاتی ہے  جیسے کہ ابو داؤد (1؍61)میں ہے :’’باب جب زمین خشک ہو جائے  تو پاک  ہو جاتی ہے ‘‘۔

ابن عمر سے روایت ہے  وہ کہتے ہیں کہ میں مسجد میں روات گزارا کرتا تھا ۔ رسول اللہﷺ کے زمانے میں اور غیر شادی شدہ  جوان تھا اور کتے مسجد میں پیشاب کردیا کرتے تھے اور آتے جاتے تھے تو اس پر پانی  نہیں ڈالا کرتے تھے (احمد1؍71بخاری (1؍29)بغیر لفظ’’تبول‘‘کے۔عون المعبود (1؍147)میں کہا  ہے کہ اس حدیث میں واضح دلیل  ہے کہ زمین اگر دھوپ سے خشک ہو جائے تو پا ک ہو جاتی ہے۔اور یہ قول ہے ابو قلابہ اور ابو حنیفہ اغیرہ کا ۔ ملخصا۔

ابن ابی شیبہ نے (1؍57) میں ابوجعفر محمد  بن علی سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں :زمین کا خشک ہونا  اسکا پاک  ہونا ہے  اور اسی طرح ابن الحنفیہ اور اور ابو قلابہ دونوں سے روایت ہے وہ دونوں کہتے ہیں ۔کہ جب زمین خشک ہو گئی  تو پاک ہو گئی ۔اور اس طر ح عبد الرزاق مصنف  میں ابو قلابہ سے روایت  لاتے ہیں اسی طرح  نصب الرایہ(1؍211) میں ہے ۔ مرفوع روایت بھی آتی ہے لیکن وہ ثابت ہے لیکن وہ  ثابت نہیں ۔ دیکھیں  فقہ السنہ(1؍30) ۔یہ تو اس صورت میں ہے  جب نجاست مائع  حالت میں ہو  لیکن اگر نجاست جرم دار ہو تو جب تک اسے زائل نہ کر ویا جائے یا تبدیل  نہ کر دیا جائے  تو پاک نہ ہو گا ۔

موزے اور  جوتے وغیر ہ اور ان جیسی اور اشیاء کو اگر نجاست دیکھی جاسکتی ہو  تو انہیں زمین پر  مل دینے سے پاک ہو جاتے ہیں جیسے کہ ابو سعید خدری ﷜ سے روایت ہے :’’جب تم میں سے  کوئی مسجد کو آئے اور اپنے جوتے میں پلید ی لگی دیکھے  تو اسے زمین پر مل  کر اسمیں نماز  پڑھے ۔(ابو داؤد:1؍128۔دارمی :1؍160۔المشکوٰۃ:1؍73)۔

یہ حدیث اوراس جیسی دیگر حدیثیں عام مطلق ہیں اسمیں جرم دار وغیر جرم دارکا کوئی فرق نہیں ۔اور جو فرق کرتے ہیں انکے پاس کوئی  دلیل نہیں ۔ سواے قیاس فاسد کے ۔اور وہ یہ ہے  کہ درم دار نجاست جب خشک  ہو جاتی ہے  تو اسکے نجس مواد جو جوتے یا موزے میں جذب ہو جاتے  ہیں اور خشک ہو جاتے ہیں ۔آپ غور کریں کہ کیا نجاست اس قدر باقی رہ سکتی ہے  پھر تو نجاست سے  اسی صور ت میں ممکن ہے کہ جوتے صندوق میں رکھ کر محفوظ کر لیے  جائیں۔ واللہ اعلم۔

ابو داؤد (1؍128 ) میں ابو ہریرہ ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا:

جب کوئی پلیدی  کو جوتے  تلے روندے تو مٹی اسے پاک کر دیتی ہے ‘‘۔اور ایک اور روایت میں ہے  ’جب موزوں تلے  نجاست روندی جا ئے  تو مٹی اسے پاک  کرنے والی ہے ۔‘‘ان صحیح  مطلق احادیث  پر ذرا نظر ڈالیں ۔ رسول اللہ ﷺ  کا آسانی کر دینے  کے بعد کسی مسلمان کیلیے  یہ جائز نہیں کہ وہ امت  پر تنگی کرے۔  

کتے کے جھوٹے والی نجاست سات بار دھونے سے باک ہوتی  ہے جسمیں ایک بار  مٹی کے ساتھ دھونا ہے ابو ہریرہ سے متفق علیہ  حدیث  میں ہے  وہ کہتے  ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ ’’جب کتا تم میں سے کسی کے برتن میں  منہ مار جائے تو اسے سات بار دھونا  چاہیے ‘ایک بار ان میں مٹی کے ساتھ دھوئے۔‘‘(المشکوٰۃ1؍52)۔

تجر بہ شاہد  ہے کہ کتے کے جراثیم تین بار دھونے سے ختم  نہیں ہوتے  بلکہ جب تک مٹی  سے دھویا  جائے صاف  نہیں ہوتے۔اس حدیث کا کوئی دوسرا معارض نہیں تو ہم اسی حدیث  کو کسی مجتہد  کے  فتوے  کی وجہ  سے نہیں  چھوڑ سکتے جو اپنے فتوے  میں غلطی پر ہے۔٭رہی  وہ نجاست  جو کسی  کپڑے  یا بدن  کو لگی  ہو اور دیکھے  جانے کے  قابل  ہو تو اسے دھو کر  زائل کرنا  چاہیے اور اگر  دھونے  کے بعد نشان  رہ  جائے  جس  کا    زائل  ہوتو وہ معاف   ہے ۔اگر وہ نجاست  دیکھنے  میں نہ آتی ہو جیسے  پیشاب  وغیرہ تو اسے ایک بار  پانی پہنچاے  ۔ کیو نکہ  غسل  جنابت میں تین بار پانی بہنا  ثابت نہیں۔رسو ل اللہ ﷺ صرف تین  چلو  پانی  اپنے سر پر ڈالا کر تے تھے۔اسکی دلیل  وہ  حدیث  ہے جو بخاری (1؍45)،وغیر ہ میں آتی ہے ۔اسماء ﷜  سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ ایک عورت آئی  اور کہنے لگی  ہم میں سے اسے مل کر دھو دے  پھر اس میں نماز  پڑھے۔’’تو اس عورت  کو نبی ﷺ نے تین  بار دھو نے  کا  حکم نہیں  دیا  تین  بار دھونے  کا حکم تو اس شخص  کے لیے  آیا ہے  جو نیند سے اٹھے تو وہ  اپنے ہاتھوں  کو تین   بار دھونے سے پہلے   برتن میں نہ ڈبوئے۔

٭آئینہ ‘چھری‘تلوار ‘ ناخن  ہڈی  ‘شیشہ ‘برتن اور قلعی شدہ  چیزیں  حو مسام  دار نہیں ہوتیں انہیں پونچھ کر پاک کیا جا سکتا ہے ‘اسطرح نجاست کا اثر  زائل  ہو جا  تا  ہے  کیونکہ  صحابہ کرام تلوار گردن میں لٹکائے  نمازیں  پڑھا کرتے  تھے  جنہیں  خون لگا ہوتا  تھا وہ صا ف کر لیا کرتے ‘اور اسی پر اکتفاء کرتے تھے۔

بلکہ امام ابن تیمیہ نے الفتاوٰی (21؍522) میں کہا  ہے کہ  قصاب کی چھری  دھونے کی ضرورت نہیں  جن  چھریوں سے ذبح  کیا ہوتا تھا وہ صاف  کرلیا کرتے تھے ‘اوراسی پر اکتفاء کرتے تھے۔

گھی وغیرہ جس میں چوہا گر جائے اسکے بارے میں راجح قول  یہی ہے کہ چوہا اور اس کے آس پاس  کا گھی گرا دینے  سے پاک ہو جاتا ہے ‘گھی مائع ہو یا  جامد۔اور وہ حدیث جسمیں مائع  اور جامد   کا فرق  ہے وہ ضعیف ہے ۔اسمیں معمر نے زہری پر غلطی  کی ہے   جو ماہرین  نقاد حدیث کے نز دیک معروف ہے جیسے  کہ امام ترمذی  نے (2؍2) میں امام بخاری سے  نقل کیا ہے ۔صحیح   وہ ہے جسے امام بخاری نے (1؍37۔831؍2) میں

(باب اذا وقعت الفارۃ فی السمن  الجامد او الذئب ) میں ذکرر کی ہے ‘ پھر انہوں نے امام زہری سے ذکر کیا ہے ان سے پو چھا گیا جو تیل یا گھی جامد  ہو یا غیر جامد میں گر کر مر جائے  جانور چوہا  ہۃ یا کچھ اور تو انہوں نے کہا :،ہمیں یہ بات  پہنچی ہے کہ رسول اللہﷺ نے اس چوہے بارے میں حکم  دیا :جو گھی میں  گر کر مر جا گیا تھا تو اسے اور اس کے آس پاس  گھی  پھینک دیا اور باقی کھایا ۔

اور ابن عباس کی  حدیث  میمونہ  رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے وہ کہتی  ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ سے چوہے  کے بارے میں پو چھا گیا  جو گھی میں گر گیا  تھا  تو آپﷺ نے فرمایا:اسے اور اسکے آس پاس  گھی  کو پھینک دو  اور (باقی ) کھاؤ۔تواس صحیح  حدیث میں نبی ﷺ  نے مطلق   جواب دیا  جسمیں  تفصیل نہیں  تو اس سے عموم کا فائدہ حاصل ہوتا ہے ۔اور پہلی حدیث کے باطل ہونے کے دلائل میں سے یہ حجاز گرم ہونےکی وجہ  سے وہاں گھی جامد  نہیں ہوتا ۔ جیسے امام  ابن تیمیہ نے  الفتاوی ٰ (21؍524) میں کہا ہے ۔اور حافظ  ابن حجر نے فتح الباری (9؍549) میں زہری کی  حدیث جسمیں جامد وپگھلے  ہوئے کا فرق  ہے ‘‘ضعیف کی طر ف اشارہ کیا ہے ۔یہی  مذہب ابن عباس ابن مسعود بخاری اوزاعی   وغیر ہ محققین کے جیسے  کہ  فقہ السنہ (1؍30) میں  ہے۔

مردار کا چمڑہ: داغت سے  پاک ہو جاتا ہے اور دباغت سے چمڑہ ظاہرا وباطنا  پاک ہو جاتا ہے ۔ابن عباس کی حدیث کی وجہ سے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :جب چمڑے کی دباغت ہو جائے  تو وہ پاک ہو جاتا ہے ۔(2؍989)ومسلم (1؍158) یہ ہے  نجاست کے احکام

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص343

محدث فتویٰ

تبصرے