سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(147) کیا بارش کے کیچڑ سے کپڑے پلید ہوتے ہیں؟

  • 11867
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2701

سوال

(147) کیا بارش کے کیچڑ سے کپڑے پلید ہوتے ہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بارش کا کیچڑ اور یہ راستوں میں جو کیچڑ ہوتا ہے نجس ہے جس سے کپڑے تبدیل کرنا یا دھونا  فرض ہے۔یا اس کیچڑ کے چھینٹے معاف ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب تیرا  کپڑا ظاہر میں پلید  نہ ہو تو اپنے کپڑے کو ایسے کیچڑ سے جس میں نجاست یقینا نہ ہو دھونے کی ضرورت نہیں۔ کیو نکہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے انہیں ایک عورت نے کہا میرا دامن لمبا ہے اور گندی جگہ سے گزر تی ہوں تو آپ نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’بعد والی جگہ سے گزرتے ہوئے وہ پاک ہو جاتا ہے۔مالک (1؍71) احمد ‘ابو داؤد(1؍77) دارمی ‘المشکاۃ(1؍53) ۔اور اس کی سند بوجہ  شاہد درست  ہے جو ہم ابھی ذکر کریں گے۔

جیسے ترمذی نے(2؍47) میں اور ابن ماجہ نے (1؍87) میں روایت کیا ہے بنی عبد الاشہل کی ایک عورت سے روایت ہے وہ کہتی ہے کہ میں نے کہا اے اللہ کے رسول !مسجد تک ہمارا راستہ بدبودار  ہے۔تو بارش میں ہو کیا کریں ۔تو آپ ﷺ نے فرمایا ‘اس کے بعد والا راستہ اس سے  اچھا نہیں ہے !میں نے کہا !ہاں ہے فرمایا :یہ اس کے بدلے  میں ہے ‘ابوداؤد(1؍77) بسند صحیح ۔ المشکوٰۃ (1؍53) ابن ماجہ (1؍87)

اور جب اصل اشیاء میں طہارت  ہے اور نجاست  متیقن نہیں ۔تو تم پر کوئی حرج نہیں ۔موءطا کے حاشیے  میں ہے ’’راستوں کا کیچڑ   پاک  ہے جب تک اس میں نجاست نہ ہو جائے ۔اور المرقاۃ (2؍76) میں ہے :اگر یہ حدیث اس پر محمول کی جائے کہ راستے کا کیچڑ پاک ہے یا عموم بلویٰ کی رجہ سے معاف ہے تو یہ توجیہ عمدہ ہے۔

اور رد المختار (1؍216) میں ہے :’’راستوں کا کیچڑ معاف ہے مجبور ی کی وجہ سے اگرچہ سارے کپڑے بھر جائیں۔اگرچہ گندگی اس میں ملی ہو اور اس کے  ساتھ نماز درست ہے  ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ مشائخ نے امام محمد کے آخر قول پر قیاس  کیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ گوبر ولید پاک ہے ‘‘۔

میں کہتا ہوں :یہی حق ہے جیسے کہ مسئلہ (130) میں ذکر کر چکا ۔پھر کہا ہے۔کیچڑ کے پاک  ہونے کا قول ان کے ہاں محفوظ نہیں اور ان سے بچنا بھی مشکل ہے بخلاف ان لوگوں کے جو ایسی حالت میں نہیں گزرتے تو ان کے حق میں معاف نہیں اور وہ ان کپڑوں  میں نماز نہ پڑھیں۔

میں کہتا ہوں :معافی کے لیے قید ہے کہ نجاست کا اثر اس میں ظاہر نہ ہو جیسے کہ ’’فتح‘‘میں ’’تجنیس‘‘سے اس کا نجس ہو نا معقول ہے ۔اور قہتانی نے اسے صحیح کہا ہے ۔اور ’’تنیہ‘‘میں دو قول ہیں  اور دونوں کو  پسند کیا ہے ۔ابو نصر الدبوسی سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ پاک ہے جب تک نجست نہ دیکھے ۔اور کہا ہے یہ روایت کے لحاظ سے صحیح اور منصوص کے لحاظ سے قریب ہے۔اور  اورں سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے‘اگرنجاست کا غلبہ ہو جائز نہیں اور اگر کیچڑ کا غلبہ ہو تو پاک ہے ۔پھر کہا ہے :مصنف کے نزدیک یہ درست  ہے نہ کہ معاند کے نزدیک۔

دوسرا قول: اس قول  کا تعلق  اس سے ہے پانی اور مٹی مل جائیں  اور ان  میں سے ایک نجس ہو تو اغلب  کا ہوگا۔مجموعۃ الفتاویٰ لشیخ  الاسلام ابن تیمیہ(21؍18) میں  اس  قائدے کے تحت لکھا ہے ’’پاک چیز کا  پلید  چیز  کے ساتھ مل جانے کا شبہ  ہو تو دونوں سے اجتناب فرض ہے ۔لیکن اگر کوئی چیز  یقینی طور پر حلال ہو اور کسی ایسی چیز کے ساتھ  خلط ملط نہ ہوئی  ہو جس پر حکم نجاست کا پلید  ہو سکتی ہے؟اسی لیے اگر یقین  ہو کہ مسجد  میں یا کہیں اور کچھ جگہ پلید ہے لیکن اس کا بعینہ علم  نہ اور اس نے وہاں کس جگہ نماز پڑھی اور اسے پلید ہونے کا علم نہیں تھا تو اس  کی نماز درست ہے کیونکہ وہ جگہ یقینی طور پر پاک  تھی اور اسے یہ علم  نہیں تھا کہ یہ پلید ہے۔

اور اسی طرح اسے راستوں کے کیچڑ سے کچھ لگ جائے جس پر نجاست کا حکم  نہیں اور اسے علم ہے راستوں کا کیچڑ پلید  ہے اور  اس کا محصور و غیر عد دمیں قلیل و کثیر  میں فر ق  نہیں کر سکتا۔اور اسی طرح  کہا  گیا  ہے  بہن  کا اجنبیہ کے اشتباہ  ہونے والی مثال میں کیو نکہ  وہاں حلال کا  حرام  کے ساتھ اشتباہ ہو گیا  ہے اور یہاں حلت پر حرمت کے طاری ہونے کا شک ہو گیا ہے ۔اور جب کپڑے  یا  بدن کو  نجاست کا شک ہو جائے تو  بعض  علماء چھینٹے  مارنے کا حکم دیتے ہیں اور مشکو ک کا حکم  النضح (چھینٹے مارنا ) قرار  دیتے  ہیں ۔ جیسے کہ امام مالک   فرماتے  ہیں اور بعض  علماء یہ واجب نہیں کرتے ۔

 جب احتیاط سے بھی کام لے اور مشکوک پر چھینٹے بھی مارے تو یہ اچھا  ہے کہ مروی ہے کہ انس کافی عرصہ چٹائی  کے استعمال کی وجہ  سے چھینٹے  مارتے تھے  اور عمر  نے بھی اپنے کپڑے پر چھینٹے  مارے وغیرہ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص333

محدث فتویٰ

تبصرے