سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(62) قرآن مجید کی قراءتوں کی تعداد

  • 11864
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2655

سوال

(62) قرآن مجید کی قراءتوں کی تعداد

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کچھ لوگ کہتے ہین کہ قرآن مجید میں قراءتوں  کے تعدد کے معنی یہ ہیں کہ قرآن مجید میں اختلاف ہے کیونکہ قراءت کے اختلاف سے معنی میں فرق آجاتا ہے مثلا سورۃ الاسرا ء کی آیت﴿وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنْشُورًا﴾ میں اگر﴿ يَلْقَاهُ مَنْشُورًا﴾ پڑھا جائے تو اس  سے معنی میں تبدیلی  آجائے گی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی ﷺ سے یہ ثابت ہے کہ قرآن مجید عربوں کے  لغات ولہجات میں سے  سات کے مطابق نازل ہوا ہے۔

(صحیح البخاری فضائل  القرآن باب انزل القرآن علی سبعاحرف حدیث:4992۔ وصحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب بیان القرآن انزل  علی سبعۃ احرف وبیانومعناھ حدیث:801)

تاکہ ان پر تلاوت کرنے میں آسانی ہو اور اس طرح  یہ بھی  اللہ تعالیٰ کی عربوں پر رحمت ہے۔ یہ نقل متواتر سےثابت ہےاور قرآن مجید کی قرآتیں ہی  اس بات  پر مہر تصدیق  ثبت  کرتی ہیں کہ یہ سب اللہ تعا لیٰ  کی طرف سےنازل شدہ ہے جو حکیم ودانا ہے۔

 قرآن مجید کی قراءتوں کے مختلف ہونے کے معنی تحریف وتبدیلی یا معانی  میں التباس یا مقاصد میں تناقض واضطراب کے نہیں ہیں بلکہ قراءتیں بعض کی تصدیق  کرتی ہیں اور ان کے معنی  ومفہوم کو واضح کرتی ہیں بعض قراءتوں کے  معانی مین تنوع بھی ہے جن مین سے ہر قراءت  ایک  ایسے حکم کا فائدہ بخشی ہے جو مقاصد شرح میں  کسی مقصد اور مصالح عباد میں سے کسی مصلحت کی وضاحت  کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف قراءتیں اس لیے بھی لائی جاتی ہین کہ ان کے معانی کی حقیقت ایک ہی ہے ۔ تشریعی صورت میں ان سب  قراءتوں کا حکم یکساں  ہے ان کے درمیان کوتعارض اور اختلاف نہیں ۔جن آیات مین مختلف قراءتیں وادر ہیں ان میں سے ایک یہ آیت بھی ہے جسے خود سائل نےذکر کیاہے اور یہ ہے ارشاد باری تعالیٰ:

﴿وَكُلَّ إِنسـٰنٍ أَلزَمنـٰهُ طـٰئِرَ‌هُ فى عُنُقِهِ ۖ وَنُخرِ‌جُ لَهُ يَومَ القِيـٰمَةِ كِتـٰبًا يَلقىٰهُ مَنشورً‌ا ﴿١٣﴾... سورةالاسراء

’’ ہم نے ہر انسان کی برائی بھلائی کو اس کے گلے لگا دیا ہے اور بروز قیامت ہم اس کے سامنے اس کا نامہٴ اعمال نکالیں گے جسے وه اپنے اوپر کھلا ہوا پالے گا ‘‘

اس آیت میں (نخرج ) کو نون کے صمہ اور راء کے کسرہ کے ساتھ اور(یلقاہ) کویا کے فتحہ اور قاف  مخففہ کےساتھ پڑھاگیا  ہے او راس کے معنی یہ ہین  کہ ہم قیامت کے دن ہر انسان کے لیے ایک کتاب .. یعنی اس کا  صحیفہ عمل—نکالیں گے او رانسان کو یہ کتاب کھلی ہوئی ملےگی اگر وہ سعید ہوگا تو اس کتاب کو اپنے دائیں ہاتھ میں اور اگر      وہ بدبخت ہو گا تو اس کتاب کو اپنے بائیں  ہاتھ  میں لے لےگا۔ ایک قراءت کےمطابق اسے ’’ يَلْقَاهُ مَنشُورًا‘‘ یعنی یاءکےضمہ اور قاف کےتشدید کےساتھ بھی پڑھاگیاہے۔ اس کے معنی یہ ہوں کہ ہم ہر انسان کےلیے موت کےکےدن ایک کتاب یعنی اس کاصحیفہ اعمال نکالیں گے اور انسان کو یہ کتاب اس طرح  دی جائےگی کہ یہ کتاب کھلی ہوئی  ہوگی یعنی آخرکار ان دونوں قراءتوں کے معنی  ایک  ہیں ہیں کہ جس کو کتاب  دی تو اسے مل جاتی ہے اور جس کو کتاب مل گئی  وہ اسے گویا دے دی گئی ۔

اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فى قُلوبِهِم مَرَ‌ضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَ‌ضًا ۖ وَلَهُم عَذابٌ أَليمٌ بِما كانوا يَكذِبونَ ﴿١٠﴾... سورة البقرة

’’ ان کے دلوں میں بیماری تھی اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری میں مزید بڑھا دیا اور ان کے جھوٹ کی وجہ سے ان کے لئے دردناک عذاب ہے ‘‘

اس آیت میں ’’یکذبون‘‘ کو یاءکے فتحہ کاف کےسکون اور ذال کےکسرہ کےساتھ پڑھاگیا ہے اور اس کے معنی یہ ہوں گے یہ جھوٹ  بولتے ہیں اور اللہ  اورمومنوں کےبارے میں جھوٹی خبریں دیتے ہیں۔ اسے  ’’یکذبوں ‘‘یعنی یاء کےضمہ کاف کے فتحہ اور ذال مکسورہ کی تشدید کے ساتھ بھی پڑھاگیا ہے اور اس کے معنی یہ ہوں گے کہ انبیاء علیہم السلام اللہ تعا لیٰ کے پاس  سے جو وحی لے کر آئے یہ اس کی تکذیب کرتے تھے ان  میں سے ایک قراءت کےمعنی  دوسری قراءت کے مطابق معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے رسولوں اور لوگوں کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں اور دوسر ی قراءت کے معنی یہ ہے  کہ اللہ تعالیٰ نےاپنےرسولوں کی طرف جن احکام کو نازل کیا ہے۔یہ منافق ان کی تکذیب کرتے ہیں یہ دونوں معنی ہی مبنی برحق ہیں کہ یہ منافق جھوٹ بھی بولتے ہیں اور تکذیب بھی کرتے ہیں۔

اس سے واضح ہواکہ تعد د قراءت بھی وحی الہی کی روشنی میں  ہے اوریہ  حکمت پر مبنی ہے۔ اس میں نہ توم تحریف  وبتدیل کا کوئی پہلو ہے ن اس  پرکوئی ناشائستہ امور  مرتب ہوتے ہیں نہ اس میں کوتناقض یااضطراب ہے بلکہ یہ معانی ومقاصد پر متفق ہیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص59

محدث فتویٰ

تبصرے