سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(57) کیا قرآن مجید میں مجاز ہے؟

  • 11860
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1966

سوال

(57) کیا قرآن مجید میں مجاز ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نےکتب  تفسیر وغیرہ میں اکثر یہ پڑھتا رہتا ہوں کہ یہ حرف زائد ہے جیساکہ ارشاد بارتعالیٰ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾ کےبارےمیں کہتے ہیں کہ﴿كَمِثْلِهِ﴾ میں کاف زائد ہے ۔ ایک مدرس نےمجھ سےکہا   کہ قرآن مجید میں  کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کاپورا نام زائد یا ناقص یا مجاز ہو۔اگر معاملہ  اسی طرح ہےتو ارشاد باری تعالی: ﴿وَاسْأَلِ الْقَرْيَةَ ﴾ اور﴿وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ﴾کےمعنی کیا ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

محققین کے مطابق صحیح بات یہ کہ قرآن مجید میں فن  بلاغت کی تعریف کے مطابق کوئی مجاز نہیں ہے قرآن مجید میں جو کچھ بھی ہے وہ اپنے مقام پر  حقیقت ہی ہے۔ بعض مفسرین جویہ کہتےہیں کہ یہ حرف زائد ہے تواس کے معنی یہ ہیں کہ یہ قواعد اعراب کے اعتبار سے زائد ہے ۔یہ معنی نہیں کہیہ معنی کے اعتبار  سےزائد ہے بلکہ عربی لغت کے مخاطب لوگوں کے ہاں اس کےمعنی معروف ہوتے ہیں کیونکہ قرآن مجید عربوں کی زبان میں نازل ہوا ہے جیساکہ  ارشاد باری تعالیٰ:

﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ﴾ میں حرف نفی مثل میں مبالغہ کا فائدہ  دیتا ہے اوریہ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ﴾ سے زیادہ بلیغ ہے۔

اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَسـَٔلِ القَر‌يَةَ الَّتى كُنّا فيها وَالعيرَ‌ الَّتى أَقبَلنا فيها ۖ وَإِنّا لَصـٰدِقونَ ﴿٨٢﴾... سورة يوسف

’’ آپ اس شہر کے لوگوں سے دریافت فرما لیں جہاں ہم تھے اور اس قافلہ سے بھی پوچھ لیں جس کے ساتھ ہم آئے ہیں، اور یقیناً ہم بالکل سچے ہیں‘‘

تو اس مراد بستی کی ساکنیں اور اصحاب قافلہ ہیں۔ عربوں کی عادت ہےکہ وہ(قریۃ) کا لفظ اہل قریہ اور(عیر) کا لفظ اصحاب قافلہ کےلیے استعمال کرتے ہین ۔ یہ  عربی  زبان کی وسعت  اور کلام کے لیے صیغوں کی کثرت کے قبیل سے ہے۔ یہ  اس مجاز کے باب میں سے نہیں ہےجو اہل بلاغت کی اصطلاح میں معروف ہے لیکن یہ ان معنوں میں ضرور مجاز ہے کہ ایسا  جائز ہے اور ممنوع نہیں ہےاسی طرح ارشاد باری تعالیٰ:

﴿ وَأُشرِ‌بوا فى قُلوبِهِمُ العِجلَ...﴿٩٣﴾... سورةالبقرة

میں مراد(جب عجل) بچھڑے کی محبت  ہےلیکن اسے مطلق اس بیان کیاگیا ہے کہ وہ لوگ  جو اس لغت کے مخاطب ہیں وہ اس معنی کو سمجھتے ہیں۔ معنی کےبالکل واضح ہونے کی وجہ سےیہ ایجاز واختصار اختیار کیا گیا ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص57

محدث فتویٰ

تبصرے