السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
طالب علم کو زکوٰۃ دینے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وہ طالب علم جس نے اپنے آپ کو شرعی علم کے حصول کے لیے مصروف کر رکھا ہو، اسے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے، خواہ وہ کمانے پر قادر بھی ہو کیونکہ شرعی علم کا حاصل کرنا جہاد فی سبیل اللہ کی ایک قسم ہے اور جہاد فی سبیل اللہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے مصارف زکوٰۃ میں شمارفرماکراسے زکوۃ کا مستحق قراردیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّمَا الصَّدَقـتُ لِلفُقَراءِ وَالمَسـكينِ وَالعـمِلينَ عَلَيها وَالمُؤَلَّفَةِ قُلوبُهُم وَفِى الرِّقابِ وَالغـرِمينَ وَفى سَبيلِ اللَّهِ وَابنِ السَّبيلِ فَريضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَليمٌ حَكيمٌ ﴿٦٠﴾... سورة التوبة
’’صدقات (یعنی زکوٰۃ وخیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنان صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب مقصود ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے قرض ادا کرنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں (بھی یہ مال خرچ کرنا چاہیے) یہ حقوق اللہ کی طرف سے مقرر کر دئیے گئے ہیں اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘
اگر کوئی طالب علم دنیوی علم کے حصول میں مشعول ہو تو اسے زکوٰۃ نہ دی جائے، اس سے ہم کہیں گے کہ اب تم دنیا کے لیے کام کر رہے ہو اور اس سے تم دنیا کمانے کے لیے ملازمت بھی حاصل کر لو گے، لہٰذا ہم تمہیں زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔ اگر ہم کوئی ایسا شخص دیکھیں جو کھانے پینے اور رہائش کے اخراجات کے لیے تو کمائی کر سکتا ہے اور اسے شادی کی بھی ضرورت ہو اور شادی کے اخراجات کے لیے اس کے پاس رقم مہیا نہ ہو تو سوال یہ ہے کہ کیا شادی کے لیے اسے زکوٰۃ دینا جائز ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں اسے شادی کے لیے زکوٰۃ دینا جائز ہے۔ زکوٰۃ کی مد سے مہرادا کرنے کے لیے ساری رقم اسے دی جا سکتی ہے۔ اگر کہا جائے کہ فقیر کو شادی کے لیے رقم دینا اور بہت زیادہ رقم دینا کس طرح جائز ہے؟ہم کہیں گے اس لیے کہ بسا اوقات انسان کو شادی کی ضرورت بھی کھانے پینے کی طرح بہت شدید ہوتی ہے۔ اسی لیے اہل علم نے کہا ہے کہ جس پر کسی شخص کا نفقہ لازم ہو تو اسے اس کی شادی کے اخراجات بھی برداشت کرنے چاہئیں بشرطیکہ مالی طور پر وہ اس کی استطاعت رکھتا ہو، مثلاً: باپ کے لیے یہ واجب ہے جب بیٹے کو شادی کی ضرورت ہوکہ وہ اپنے بیٹے کی شادی کا بندوبست کرے، لیکن اس کے پاس شادی کے لیے اخراجات نہ ہوں۔ میں نے سنا ہے کہ بعض باپ جو جوانی کے دور کی اپنی حالت کو بھول گئے ہیں، ان کا بیٹا جب ان سے شادی کے لیے کہتا ہے تو وہ ا سے جواب دیتے ہیں کہ اپنی پیشانی کا پسینہ بہاؤ، یعنی خوب محنت کر کے کماؤ اور شادی کر لو۔ یہ جائز نہیں اگر باپ بیٹے کی شادی کے اخراجات برداشت کرنے کی قدرت رکھتا ہو تو اس صورت میں اس کا یہ طرز عمل حرام ہے۔ اگر مالی استطاعت کے باوجود وہ اپنے بیٹے کی شادی پر خرچ نہیں کرتا، تو اس کا بیٹا روز قیامت اس کا خصم بن کر اس سے اپنے حق کا مطالبہ کرے گا۔
سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک شخص کے چند بیٹے ہوں، ان میں سے بعض شادی کی عمر کو پہنچ گئے ہوں اور ان کی اس نے شادی کر دی ہو اور کچھ بیٹے چھوٹے ہوں تو کیا اس شخص کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بیٹوں کی شادی کے مہر کے لیے کچھ مال کی وصیت کرے کیونکہ اس نے اپنے بڑے بیٹوں کی شادی پر مال خرچ کرچکاہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جب آدمی اپنے بڑے بیٹوں کی شادی پر خرچ کرے تو اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے چھوٹے بچوں کے لیے وصیت کرے، البتہ یہ واجب ہے کہ جب ان میں سے کوئی شادی کی عمر کو پہنچ جائے، تو اس کی شادی پر بھی اسی طرح خرچ کرے جس طرح اس نے پہلے بیٹے کی شادی پر خرچ کیا تھا۔ اپنی موت کے بعد اس کے لیے وصیت کرنا حرام ہے اور اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:
«اِنَّ اللّٰهَ قَدْ اَعْطٰی کُلَّ ذِی حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ» (سنن ابي داؤد، الوصايا، باب ماجاء فی الوصية للوارث، ح: ۲۸۷۰ وجامع الترمذی، الوصايا، باب ماجاء لا وصية لوارث، ح: ۲۱۲۰)
’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر حق دار کو اس کا حق عطا فرما دیا ہے، لہٰذا وارث کے لیے وصیت نہیں ہے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب