السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا قیئ نجس ہے .؟ کیا اس سے وضوء ٹو ٹ جاتا ہے ۔ سائل : الحاج امیر رحمٰن
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اول کیا قیئ نجس ہے .؟
دوم:کیا اس سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے اوریہ پہلے مسئلے کی فرع ہے۔
ہم کہتے ہیں :قیئ کے نجس ہونے میں علماء کا اختلاف ہے ‘محققین کا مذہب یہ ہے کہ یہ نجس نہیں ہوتی ۔وہ اس مسئلے پر کئی دلائل سے استدلال کرتے ہیں۔
(1):نبی ﷺ نے کسی صحیح حدیث میں نہ اس کے ازالے کا حکم فرمایا ہے اور نہ اس سے وضوء کرنے کا حکم دیا ہے اگر یہ نجس ہوتی تو نبیﷺ کا اسے بیان کرنا ضروری تھا کیونکہ لوگ اس میں بکثرت مبتلا ہوتے ہیں۔
(2): اصل ہر چیز میں طہارت ہوتی ہے تو اس سے نقل کے لیے صحیح ناقل کا ہونا ضروری ہے جس کا کوئی معارض نہ ہو اور ہو تو راجح نہیں مرجوح ہو۔اور یہ اہم قائدہ ہے جس کی اکثر مسائل میں مفتی کو ضرورت پڑتی ہے ۔اسی لیے نواب صدیق حسن خاں نے الروضۃ الندیہ(1؍47۔48) میں قیئ کرنے سے وضوء کو تر جیح دی ہے ۔اور جو کہتے ہیں کہ نجاست قیئ کی دلیل اجماع ہے تو صرف دعوی ٰ ہی ہے ۔
دوسرا مسئلہ:
قیئ سے وضوءکے ٹوٹنے کا مسئلہ ہو ہم کہتے ہیں ۔جب قیئ کی عدم نجاست ثابت ہو گئی تو اس کے نکلنے سے وضوء نہیں ٹوٹتا ۔ البتہ مستحب ہے کیونکہ صحیح حدیث میں ثابت ہے۔
ابو الدرداء سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے قیئ کی تو آپنے روزہ توڑا اور وضوء کیا ۔میری مسجد دمشق میں ثوبان سے ملاقات ہوئی تو میں نے اسے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا درست ہے آپ ﷺ کو وضوء کراتے ہوئے میں نے ہی پانی ڈالا تھا۔
ترمذی (1؍27) احمد(6؍443) المشکوٰۃ (1؍176)
اس حدیث سے استحباب ثابت ہوتا ہے صرف کسی فعل کا کرنا وجوب پر دلالت کے لیے کافی نہیں۔اسی لیے شیخ الاسلام الفتاویٰ(21؍242) میں کہتے ہیں :قیئ ’نکسیر ’سنگی اور فصد (پچ لگانا ) اور زخمی ہونے سے وضوء کرنا مستحب ہے جیسے کہ نبیﷺ اور صحابہ سے وارد ہے کہ وہ ان چیزوں سے وضوء کیا کرتے تھے اس کی فر ضیت کے لیے کتاب وسنت میں کو ئی موجب دلیل نہیں۔ارو ء الغلیل (1؍148) رقم:(111) میں ہے:
(فائدہ ):۔مصنف نے حدیث سے استدلال کیا ہے کہ قیئ سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے اور اس کے ساتھ قید لگائی ہے کہ وہ بہت زیادہ ہو اور یہ زیادہ ہونا ہر کسی کا اس کے اندازے پر مو قوف ہے تو اس قید کا حدیث میں با لکل ذکر نہیں (یعنی ابو داؤد کی مذکورحدیث)اور حدیث وضوء کے ٹوٹنے پر مطلقا دلالت نہیں کرتی کیو نکہ یہ مجرد رسول اللہﷺ کا فعل ہے اور اصلا وجوب پر دلا لت نہیں کرتا ۔ زیادہ سے زیادہ یہی ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کی اقتداء کرنے کے لیے مشروع ہے ۔
وجوب کے لیے خاص دلیل کا ہونا ضروری ہے اور اس کا یہاں کو ئی وجود نہیں اکثر محققین کہتے ہیں کہ قیئ سے وضوء نہیں ٹوٹتا ۔ ان میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ بھی ہیں۔
علامہ ابن خزم المحلیٰ (1؍235) میں کہتے ہیں:
قیئ کم ہو یا زیادہ اس سے وصوء ٹوٹنا اسی طرح کھٹے پانی اور پیپ سے ’’الخ’دیکھیں تمام المنہ(ص:53) اور المجموع (2؍551) میں ہے ’’وہ رطوبت جو معدے سے خارج ہو حنفیہ کے نز دیک پاک ہے ‘‘۔
شاه ولی اللہ الدھلوی حجۃ اللہ البالغہ میں کہتے ہیں۔:ابراہیم کہتے ہیں بہتے والے خون ’قیئ کثیر سے وضوء کرنا ہے ‘اور حسن کہتے ہیں :نماز میں قہقہہ لگانے سے وضوء ہے ۔دوسروں نے یہ قول نہیں کیا اور اس دلیل میں ایسی حدیث ہے کہ جس کے صحیح ہونے پر حدیث کی معرفت رکھنے والے علماء جمع نہیں ہوسکے ۔او اصح بات یہ ہے :’’جس نے احتیاط کی اس نے اپنی عزت اور دین بچا لیا اور جس نے یہ کی تو صریح شریعت میں اس پر کوئی سبیل نہیں‘‘۔٭زیادہ خون اور قیئ سے بدن آلودہ ہوتا ہے اور انسان کمزور ہوتا ہے اور نماز میں قہقہہ لگانا ایسی غلطی ہے جس کا کفارہ ہونا چاہیے تو اگر شارع نے وجوب کا حکم نہیں دیا اور بغیر عزیمت کے تر غیبی حکم دیا تو اس میں تعجب کی کونسی بات ہے ۔الروضۃ الندیہ کی تطبیق والے نے (1؍47) میں کہا ہے قیئ سے وضوء کے ٹو ٹنے کے بارے جو احادیث مروی ہیں وہ ضعیف اور استدلال کے قابل نہیں ۔اور اسی طرح ہی حال ہے ان احادیث کا جو وارد ہیں غیر سبیلین سے خارج ہونے والی نجاست سے وضوء کے ٹو ٹنے کے بارے میں اور قہقہہ سے وضوء کے ٹوٹنے کی حدیث تو بہت ضعیف ہے۔بلکہ بہت سے حفاظ نے اس پر مو ضوع کا حکم لگایا ہے ۔حق یہ ہے کہ ان میں سے کو ئی بھی ناقض وضوء نہیں ۔ ہم سب کا یہ فر ض ہے کہ جب ہمیں حق کا علم ہو جائے تو اسی کی طرف رجوع کریں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب