السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
الکحل اور کلو نیا کے مائعات جو طباعت پینٹنگ میں اور لبارٹری ٹیسٹوں میں استعمال ہوتے ہیں کیا اسکا استعمال جائز ہے؟ اور کیا خمر (شراب) نجس ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلے میں میں اشیخ محمد بن صالح العثیمین نے اپنے فتاوٰی (4؍254) میں لکھا اس کی طرف آپ کی رہنمائی کرتا ہوں۔وہ فرماتے ہیں :’’ یہ معلوم بات ہے کہ الکحل اکثر لکڑی اور بعض پودوں کی جڑوں سے حاصل ہوتا ہے اور یہ تا لٹا ‘ لیمو جسے
ترش پھلوں کے چھلکوں میں بکثرت موجود ہوتا ہے اور یہ مشاہدے میں آیا ہے کہ یہ آگ بھڑکنے اور جلدی بخارات بن کر اڑنے والا مائع ہے اگر اسے منفرد استعمال میں لایا جائے تو زہر قاتل اور کئی تکلیفوں کا سبب بنتا ہے لیکن اگر اسے مناسب مقدار میں کسی اور چیز کے ساتھ ملایا جائے تو اس آمیزے میں نشے کے ثرات پیدا کرتا ہے تو الکحل بذات خود مشروب اور نشے کے طور پر استعمال نہیں کیا جاتا لیکن جب اسے دیگر چیزوں کے ساتھ ملایا جائے تو اس آمیزے سے نشہ حاصل ہوتا اور جو پیدا کرے وہ خمر ہے اور خمر کتاب و سنت اور اجماع سے حرام ہے ۔لیکن کیا یہ پیشاب پاخانہ کی طرح نجس العین ہے یا اس میں صرف معنوی نجاست سکر (نشہ) کی ہے ؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ جمہور اسے نجس العین کہتے ہیں اور میرے نزدیک صحیح بات یہ نجس العین نہیں بلکہ اس کی نجاست معنوی نجاست ہے ۔
دلائل یہ ہیں۔
اول:کیو نکہ اس کی نجاست پر کوئی دلیل نہیں اور جب نجس نہیں تو یہ پاک ہے کیونکہ اصل ہر چیز میں طہارت ہے‘ہر حرام چیز نجس نہیں ہوا کرتی ۔ زہر حرام ہے لیکن نجس نہیں ۔اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّمَا الخَمرُ وَالمَيسِرُ وَالأَنصابُ وَالأَزلـٰمُ رِجسٌ مِن عَمَلِ الشَّيطـٰنِ فَاجتَنِبوهُ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ﴿٩٠﴾ إِنَّما يُريدُ الشَّيطـٰنُ أَن يوقِعَ بَينَكُمُ العَدٰوَةَ وَالبَغضاءَ فِى الخَمرِ وَالمَيسِرِ وَيَصُدَّكُم عَن ذِكرِ اللَّـهِ وَعَنِ الصَّلوٰةِ ۖ فَهَل أَنتُم مُنتَهونَ ﴿٩١﴾ وَأَطيعُوا اللَّـهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَاحذَروا ۚ فَإِن تَوَلَّيتُم فَاعلَموا أَنَّما عَلىٰ رَسولِنَا البَلـٰغُ المُبينُ ﴿٩٢﴾... سورة المائده
ترجمہ(اے ایمان والو ! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے کے تیر یہ سب گندی باتیں ’شیطانی کا م ہیں ان سے بالکل الگ رہیں تاکہ فلاح یاب ہو۔شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کر ادے اور اللہ کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے ۔اب بھی باز آ جاؤ)۔
تو الله تعاليٰ نے رجس کو مقید بیان فرمایا ہے کہ رجس عملی ہے ’ذاتی نہیں ‘(رجس من عمل الشیطن)تو جیسے میسر ‘انصاب ‘ ازلام نجس عین نہیں اسی طرح خمر بھی ہے ۔
دوم:جب اللہ تعالیٰ نے خمر کی حرمت نازل فرمائی تو اسے مدینہ کے بازاروں میں بہا دیا گیا اگر یہ نجس العین ہوتی لوگوں کے راستوں میں اس کا بہانا حرام ہوتا جیسے کہ پیشاب کا بہانا حرام ہے ۔
سوم:جب شراب حرام ہوئی تو نبی ﷺ نے برتنوں کو دھونے کا حکم نہیں دیا جس طرح کہ گھریلو گدھوں کے گوشت سے برتن دھونے کا حکم دیا تھا جب اسے حرام قرار دیا گیا ۔اگر یہ نجس ہوتی نبیﷺ اس برتن کو دھونے کا حکم دیتے جب یہ واضح ہوگیا کہ یہ نجس العین نہیں تو کپڑوں برتنوں پر لگ جانے سے ان کا دھونا نہیں اور اس کا ہر استعمال حرام نہیں بلکہ اس کا پینا اور اس جیسا وہ استعمال جو مفاسد کا سبب ہے حوام ہے اور انہی مفاسد سے حرام ہونے کے حکم کا تعلق ہے ۔اگر کوئی کہے :کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ‘اس سے بچو ‘‘اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس سے ہر حال بچا جائے۔
الجواب :اللہ تعالیٰ نے اجتناب کے حکم کی علت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے ’’شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کر دے‘‘الآیۃ(المائدہ:91)اور یہ علت پینے کے علاوہ کسی اور استعمال میں حاصل نہیں ہوتی ۔تو جب الکحل کے ان مفاسد کے علاوہ اور منافع ہیں اور ان مفاسد کو اس سے اجتناب کے حکم کی علت قرار دیا ہے تو ہمیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس کے اس استعمال سے بھی منع کر دیں ۔جس میں یہ علت موجود نہیں ۔زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ مشتبہ امور میں سے ہے احتمال حرمت کا جانب کمزور ہے اور اس کی ضرورت پڑتی ہے تو یہ احتمال حرمت زائل ہو جاتا ہے۔اس بنا ء پر الکحل کے جن استعمال کا آپ نے ذکر کیا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ۔انشاءاللہ ۔
اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں سب کچھ ہمارے فائدے کے لیے پیدا فرمایا ہے اور زمین و آسمان میں سب کچھ اپنی طرف سے مہربانی فرماتے ہوے ہمارے لیے مسخر فرمایا ہے تو ہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہم کوئی پابندی لگائیں اور اللہ کے بندوں کو اس سے منع کریں جب تک کتاب و سنت کی کوئی دلیل موجود نہ ہو۔اگریہ کہا جائے کہ شراب جب حرام ہوئی تو بہا نہیں د ی گئی تھی؟ ہم کہتے ہیں : ہاں یہ درست ہے لیکن یہ سرعت حکم برداری میں مبالغہ پر مبنی ہے پھر یہ ظاہر ہوتا ہے اس وقت اس کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہا تھا‘‘واللہ اعلم۔
شیخ ابن عثیمین صاحبنے جو لکھا یہاں تمام ہوا اور یہ تحقیق بڑی عمیق ہے ہے یہ مسئلہ (نمر:148) میں ذکر کریں گے ۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب