سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(143) کس قدر نجاست کپڑے یا بدن پر معاف ہے اور نجاست کی تقسیم۔

  • 11853
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1803

سوال

(143) کس قدر نجاست کپڑے یا بدن پر معاف ہے اور نجاست کی تقسیم۔

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کس قدر نجاست کپڑے یا بدن پر معاف ہے اور کیا نجاست کی تقسیم مخففہ اور مغلظہ پر کرنی  جیسے بعض فقہا ء کرتے ہیں درست ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جاننا چاہیے کہ نجاست  اگر شریعت اسلامی میں نجاست ہو تو وہ معاف ہے چاہے بدن  پر جبکہ انسان کو علم ہو  جائے اور اس کے ازالے میں کو ئی عذر نہ ہو۔اور دلیل اللہ تعالیٰ کا قول ہے:

﴿ وَثِيابَكَ فَطَهِّر‌  ٤﴾...سورة المدثر

اور اپنے کپڑو ں کو پاک رکھا کرو۔

یہ مطلق  ہے اور  یہاں قلیل و کثیر کی کوئی قید نہیں اور اسی طرح ازالہ نجاست  میں ثابت  حدیثیں  بھی مطلق ہیں اور ان میں  کوئی  چیز خاص نہیں ۔ تو جو کہتے  ہیں  کہ نجاست بقدر  خفیفہ میں بقدر چوتھائی  کپڑے کے نجاست غلیظہ میں بقدر درہم معاف ہے تو  یہ ایسا قول  ہے جس پر کتاب وسنت اور اجماع امت سے کوئی دلیل نہیں۔

رہی وہ حدیث جیسے وار قطنی نے (1؍401) اور بیہقی نے (2؍404) میں ابو ہریرہ ﷜ سے روایت  کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا :

«تعاد الصلاۃ من قدر الدرہم»

’’درھم  جتنی (نجاست سے ) نماز  لو ٹا ئی  جائے‘‘۔

اور ایک اور حدیث کے لفظ ہیں:’’ جب کپڑے پر بقدر درھم کے خون لگا ہو تو کپڑا دھویا جائے اور نماز لوٹائی جائے‘‘۔یہ حدیث مو ضوع (منگھڑت ) ہے کیونکہ اس کی سند میں روح  بن غطیف راوی متروک ہے ۔امام بخاری ﷫ کہتے ہیں یہ حدیث باطل ہے اور اس میں روح نامی راوی متروک ہے  جیسے کہ الضعفاء للعقیلی(2؍52) میں ہے ابن جوزی﷫ نے اسے ’’موضو عات ‘‘ میں ذکر کیا ہے اور امام  سیوطی ﷫ نے ’’اللالی‘‘میں بر قرار رکھا ہے

اور امام زیلعی﷫ نے نصب الرایہ میں(1؍212) ابن حبان سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں اس حدیث کے مو ضوع ہونے میں کوئی شک نہیں  یہ بات رسول اللہﷺ نے نہیں فرمائی  یہ کوفے والوں کی اختراع ہے اور رح بن غطیف کا کام ہی یہی تھا  کہ  وہ ثقات کی طرف سے موضوع حدیثیں روایت کرتا تھا ۔یہ حدیث دوسری سند سے ان لفظوں میں ہے ’’خون بمقدار ایک درھم کے دھویا جائے  اور نماز اس سے لوٹائی جائے ’’یہ حدیث موضوع ہے ۔

خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد (9؍330) میں بسند نوح ابن مریم  وہ یزید الھاشمی سے اور وہ زیدی سے اور وہ ابو سلمہ سے وہ ابو ہریرہ ﷜ سے مرفو عا روایت کرتا ہے ‘یہ سند موضوع ہے نوح ابن ابی مریم متھم ہے ابن جوزی نے اسی سند کے ساتھ الموضوعات میں روایت کیا ہے اور کہا ہے نوح کذاب ہے امام زیلعی﷫ نے نصب الرایہ(1؍212) میں اسے برقرار رکھا ہے ‘الالی للسیوطی (1؍3) دیکھو ‘السلسلہ الضعبفہ (1؍180) برقم :148۔149)پھر الشیخ نے فرمایا ہے:نجاست غلیظہ کو قدر درھم کے ساتھ مقید کرنا باطل ہوا –اور نجاست سے اجتناب فرض ہے اگرچہ درھم سے کم ہی کیوں  نہ ہو کیونکہ طہارت کا حکم ثابت  کرنے والی حدیثیں عام ہیں۔

نجاست کی غلیظہ اور خفیفہ میں تقسیم:

خمر‘دم مفسوح‘مردار کا گوشت ‘جن جانوروں کا گوشت نہبں کھایا جاتا  ان کا پیشاب ‘کتے کی بیٹ ‘قئی وعیرہ  کو نجاست غلیظہ کہنا اور گھوڑے کا پیشاب اور جن  جانوروں کا  گوشت کھایا جاتا ہے ان کا پیشاب وغیرہ کو نجاست خفیفہ  قرار دینے کی کتاب و سنت  سے کوئی دلیل نہیں۔بلکہ علماء نے خمر کے پلید ہونے نہ ہونے میں اختلاف کیا ہے جبکہ  وہ اس کی حرمت  اور معنوی ہیں دونوں اقوال میں راجح قول  یہ ہے کہ شراب پاک ہے اور حرام ہے اوراس کے  نجس ہونے کی دلیل نہیں ۔دلائل مسئلہ (نمبر :144) میں آرہے ہیں ۔پھر خون کے طاہر و نجس ہونے میں اختلاف ہے تو ہر  قسم کا خون پلید نہیں ۔ تحقیق آگے  آرہی ہے ۔ان شاء اللہ۔

اور اسی طرح قئی کی نجاست  پر  بھی دلیل نہیں اس کا ذکر بھی آگے آئے گا ۔ گھوڑے کے پیشاب اور گوشت کھائے جانے والے جانور  کے پیشاب کے بارے میں تحقیق گزر چکی  کہ راجح قول  یہ ہے کہ پاک ہے ۔

مسلمان کے لیے مناسب ہے کہ تمام مسائل میں شرعی دلائل کا لحاظ  رکھے اور اقوال  ائمہ﷭ کی  طرف دیکھے  جب ان  کے پاس دلیل  نہ ہو ۔ نہ ہی جمہور  و اکثر یت کی طرف دیکھے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص326

محدث فتویٰ

تبصرے