السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
استنجاء کے لیے پتھروں یا ڈھیلوں کی تعداد کتنی ہونی چاہیے؟کیا یہ تعداد بڑے پیشاب کے استنجاء کے لیے وارد ہے یا دونوں کے لیے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(1)۔:صرف پانی کے ساتھ استنجاء۔
(2)۔ صرف پتھروں کے ساتھ استنجاء۔
(3)۔:پتھروں اور پانی دونوں کو جمع کرنا۔
پہلی دو قسمیں احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں۔
تیسری قسم میں صحیح الاسناد کوئی حدیث نہیں ؛ضعیف الاسناد ایک حدیث اس میں آتی ہے اور وہ حدیث ہے جس میں اہل قباء کا پانی اور پتھردونو ں کو جمع کرنے اور آیت:
﴿فيهِ رِجالٌ يُحِبّونَ أَن يَتَطَهَّروا ۚ وَاللَّـهُ يُحِبُّ المُطَّهِّرينَ ١٠٨﴾...سورة التوبة
کا ذکر ہے ۔تو اسے امام نووی ’حافظ ابن حجر’ ابن کثیر اور البانینے ضعیف کہا ہےجیسے کہ تمام المنہ:ص:(65) میں ہے۔
اہل قبا ء کے بارے میں صحیح حدیث آئی ہے لیکن وہ پتھر کے ذکر کے بغیر ہے جیسے کہ سنن ابی داؤد (7؍1) (رقم:44) باب الاستنجاء بالماء میں ہے۔
اسی طرح وہ حدیث جو امام بیہقی نے (1؍10) میں عبد المالک بن عمر سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب نے فرمایا :‘‘یقینا وہ تو مینگنی کی طرح (خشک) پا خانہ کرتے تھے اوہ تم گوبر کی طرح( نرم) پاخانہ کرتے ہو تم پتھروں کے بعد پانی استعمال کر لیا کرو۔تو یہ ضعیف ہے ۔کیونکہ یہ موقوف ہونے کے ساتھ ساتھ عبد المالک اور علی کے درمیان انقطاع ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں ۔
نیز وہ راوی مدلس ہے اورسماع کی صراحت نہیں کی۔یہ حدیث مولنا عبد الحینے ہدایہ کے حواشی میں ذکر کی ہے ۔
استنجاء کی تیسری قسم:
بعض علماء نے اسے مستحب کہا ہے لیکن اس کی کوئی صریح دلیل ذکر نہیں کی ۔ زیادہ یہ مباح ہو سکتی ہے جیسے کہ مغنی (1؍184) میں ہے۔ ابن قدامہ کہتے ہیں ‘‘ جب پانی سے استنجاء کرلے تو مٹی کی کوئی ضرورت نہیں۔’’
امام احمد کہتے ہیں ِ‘‘اسے اکیلا پانی ہی کافی ہے اور نبی ﷺ سے یہ منقول نہیں کہ آپ نے استنجاء میں پانی کے ساتھ مٹی کا استعمال کیا ہو ۔اور نہ ہی اس کا حکم دیا ہے۔ پھر یہ جان لو کہ جو استنجاء میں پانی اور پتھردونوں کا استعمال کرتا ہے تو اس پر کوئی تعداد واجب نہیں بلکہ تعداد صرف پتھر سے استنجاء کرنے والے پر ہے۔
ہم کہتے ہیں :حدیث سلمان میں ثابت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں منع کیا یعنی رسول اللہﷺ نے داہنے ہاتھ سے استنجاء کرنے سے اور تین پتھروں سے کم کے ساتھ استنجاء کرنے سے اور لید اور ہڈی سے استنجاء کرنے سے ۔مسلم (130؍1)ترمذی (9؍1) المشکوٰۃ (42؍1)۔
(2)۔:ابو ہریرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا’‘‘میں تمہارے لیے بچے کے باپ کی مانند ہوں جب تم قضائے حجت کے لیے آؤ تو قبلے کی طرف منہ نہ کرو اور نہ ہی پیٹھ کرو ۔اور حکم دیا تین پتھروں کا ۔الحدیث ۔
ابن ماجہ (57؍1) الدارمی(138؍1) المشکوٰۃ (42؍1) سند اس کی صحیح ہے رواہ ابوداؤد برقم :(6)
(3)۔:عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کے لیے جائے تو استنجاء کے لیے اپنے ساتھ لے جائے ۔یہ اس کو کافی ہونگے ۔
ابو داؤد (6؍1) النسائی (16؍1)الدارمی (137؍1) المشکوٰۃ(42؍1) احمد (133۔108؍6) اور اس کی سند صحیح ہے۔
خزیمہ بن ثابت سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :استنجاء کے لیے تبن پتھر ہیں جن میں لید نہ ہو ۔ابوداؤد (برقم :31) ابن ماجہ (57؍1) بسند صحیح دارمی (137؍1) ان احادیث میں تین پتھروں کا صراحۃ ذکر ہے اور اس میں لید نہ ہو ۔ ابوداؤد (برقم :31) ابن ماجہ (57؍1) بسند صحیح دارمی (137؍1) ان احادیث میں تین پتھروں کا صراحۃ ذکر ہے اور اس کے بالمقابل اور کوئی حدیث نہیں اس لیے اسی پر کرنا قول کرنا چاہیے اگر کسی پتھر کے تین کونے ہوں تو تین بار پونجھنا چاہیے لیکن تین پتھر الگ الگ ہونا افضل ہے ۔اور اسی طرح چیندی اور لکڑی پتھروں کے قائم مقام ہوسکتی ہے ۔جیسے کہ امام نووی نے جمہور علماء سے کہا ہے ۔(پچھلی شر مگاہ )دبر کے لیے تین پتھروں کا لینا متفق علیہ ہے۔تو کیا قبل (اگلی شرمگاہ) کے تین پتھر لئے جائیں یا نہیں؟۔
امام نووی فرماتے ہیں (شرح مسلم (131؍1) قبل اور دبر کی استنجاء کے لئے چھ بار پو نجھنا واجب ہے ہر ایک کا تین تین بار ’افضل یہی ہے کہ چھ پتھر ہونے چا ہیں اگر ایک ہی پتھر جس کے چھ کونے ہوں اکتفا ءکرے تو جائز ہے٭شرح المھذب (2؍103)۔ العرف الشذی ( 1؍10) پیشاب میں تین پتھر کا پھیرنا سلف کے زمانے میں موجود تھا۔‘‘
میں کہتا ہوں:کہ چھ پتھروں کے بارے میں میں نے کوئی صریح دلیل نہیں دیکھی ’بلکہ تمام احادیث میں صرف تین پتھروں کا ذکر ہے۔ اور جو حدیث ‘‘جس نے یہ (تین پتھروں سے استنجاء ) کیا اچھا کیا جس نے نہیں کیا تو کوئی حرج نہیں’’ابو داؤد(1؍6)سے تین پتھروں کے عدم وجوب پر استدلال کیا ہے تو یہ ضعیف ہے ’اس میں حصین الحبرانی اور ابو سعید دو راوی مجہول ہیں۔مشکوٰۃ برقم(352)
اور وہ حدیث جو امام بخاری وغیرہ نے ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ وہ دو پتھر اور ایک لید لیکر آئے تو آپﷺ نے لید کو پھینک دی’’۔٭اس کے کئی صحیح جواب دئے گئے ہیں۔دوسری روایت میں ہے :‘‘مجھے تیسرا پتھر لا دو’’۔
اسکے منقطع ہونے کا اعتراض کیا گیا جاتا ہے جس کے جواب میں حافظ ابن حجر نے فتح الباری (1؍207) میں کہا ہے مجھے یہ موصول بھی ملی ہے۔
(2)۔:اگر ہم اسے ضعیف مان بھی لیں تو تیسرا پتھر لانے کا ذکر کرنا دلالت نہیں کرتا کہ تیسرا پتھر نہیں تھا ’ کیونکہ دیگر نصوص میں تیں پتھروں کے وجوب کا ہم ذکر کر آئے ہیں۔دوسرے قول کے لیے سوائے احتمالات کے اور دلیل موجود نہیں۔
اور قولی حدیث فعلی حدیث پر راجع ہے ۔ جیسے کہ اصول اور مصطلح کی کتابوں میں ذکر ہے ۔اور قرینہ صارفہ نہ ہو تو امر وجوب کے لیے آ تا ہے ۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب