السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مشہور ہے کہ خضر علیہ السلام زندہ ہیں، صحراؤں اور چتیل میدانوں میں گھومتے ہیں اور الیاس علیہ السلام سمندروں میں گھومتے ہیں دونوں کی ہر سال ملاقات ہوتی ہے اور حج کے موقع پر وہ سرمنڈھاتے ہیں، کیا اس کی کوئی قوی دلیل ہے؟ اگر ہو تو بیان فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جاننا چاہیے کہ خضر علیہ السلام کی موت کتاب وسنت اور امت میں معتمد علیہ لوگوں کے اجماع اور عقل و اعتبار سے ثابت ہے۔ اور جو کہتے ہیں کہ وہ زندہ ہیں ان کے پاس سوائے ضعیف روایات، رکیک خواب اور کمزور اقوال کے علاوہ کوئی ٹھوس دلیل نہیں۔
دلائل پیش خدمت ہے۔
کتاب اللہ سے دلیل۔ اللہ تعالیٰ کاقول ہے:
﴿وَإِذ أَخَذَ اللَّـهُ ميثـٰقَ النَّبِيّـۧنَ لَما ءاتَيتُكُم مِن كِتـٰبٍ وَحِكمَةٍ ثُمَّ جاءَكُم رَسولٌ مُصَدِّقٌ لِما مَعَكُم لَتُؤمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قالَ ءَأَقرَرتُم وَأَخَذتُم عَلىٰ ذٰلِكُم إِصرى ۖ قالوا أَقرَرنا ۚ قالَ فَاشهَدوا وَأَنا۠ مَعَكُم مِنَ الشّـٰهِدينَ ٨١﴾...سورة آل عمران
’’جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب وحکمت دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے، تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لیے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے، فرمایا کہ تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو سب نے کہا کہ ہمیں اقرار ہے، فرمایا تو اب گواہ رہو اور خود میں بھی تمہارےساتھ گواہوں میں ہوں۔‘‘
ابن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی نبی مبعو فرمایا اس سے یہ وعدہ لیا کہ اگر ان کی زندگی میں محمد ﷺ کی بعثت ہو جائے تو انہیں ان پر ایمان لانا اور ان کی نصرت کرنا ضروری ہے (بخاری ) تو خضر علیہ السلام نبی ہوں یا ولی وہ اس میثاق میں داخل ہیں، اگر وہ رسول الہلﷺ کے زمانے میں زندہ ہوتے تو ان کا سب سے اہم کام یہ تھا کہ وہ آپﷺ کے سامنے کی ان پر اتاری گئی شریعت پر ایمان لاتے اور ان کی نصرت فرماتے تاکہ کوئی دشمن ان تک رسائی حاصل نہ کر سکے۔
دوسری دلیل: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَما جَعَلنا لِبَشَرٍ مِن قَبلِكَ الخُلدَ ۖ أَفَإِي۟ن مِتَّ فَهُمُ الخـٰلِدونَ ٣٤﴾... سورة الانبياء
’’آپ سے پہلے کسی انسان کو بھی ہم نے ہمیشگی نہیں دی۔‘‘
اگر خضر علیہ السلام کہیں ہیں تو پھر ان کے لیے خلود ثابت ہو جائے گا۔
خضر علیہ السلام اک بشر ہیں تو وہ اس عموم میں ضرور داخل ہیں اور صحیح دلیل کے بغیر ان کی تخصیص جائز نہیں۔ اصل عدم ہی ہے جب تک ثابت نہ ہو جائے اور رسول معصومﷺ سے کوئی ایسی دلیل مذکور نہیں جس سے اس عموم کی تخصیص کی جا سکے جیسے کہ امام ابن کثیر نے البدایۃ والنہایۃ (1؍334) میں کہا ہے۔
سنت سے دلائل:
پہلی حدیث : عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی آخری زندگی میں ایک رات ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی سلام پھیر کر کھڑے ہوئے اور فرمایا،: یہ جو تمہاری آج کی رات ہے اس سے لے کر سو سال تک ان لوگوں میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا جو آج زمین پر موجود ہیں، لوگوں نے رسول ﷺ کی بات سمجھنے میں غلطی کی۔
رسول اللہ ﷺ کی بات کا مطلب یہ تھا کہ جو اس وقت موجود تھے سو سال بعد وہ گزر جائیں گے۔ (بخاری (1؍188)، (2؍39۔61)، مسلم 01؍ 16۔89)
دوسری حدیث: جابر رضی سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رحلت سے تھوڑے دن پہلے فرمایا کہ آج جو نفس روئے زمین پر زندہ ہے سو سال کے گزرنے تک ان میں کوئی بھی زندہ نہ ہو گا۔
امام ابن کثیر نے البدایہ (1؍ 336) میں ان دو حدیثوں کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ امام ابن جوزی فرماتے ہیں: ’’یہ صحیح حدیثیں حیات خضر علیہ السلام کے دعویٰ کی جڑ کاٹ ڈالتی ہیں، کہتے ہیں کہ خضر علیہ السلام نے اگر نبی ﷺ کا زمانہ نہیں پایا جیسے کہ خیال ہے اور یہ خیال ترقی کر کے قوۃ میں قطعی بن جاتا ہے تو کوئی اشکال نہیں۔
اور اگر انہوں نے آپﷺ کا زمانہ پا لیا تھا اس حدیث کے تقاضے کے مطابق سو سال بعد وہ زندہ نہیں رہے تو اب وہ موجود نہیں ہیں کیونکہ وہ اس عموم میں داخل ہیں اور اصل عدم تخصیص ہے جب تک کہ قابل قبول صحیح دلیل ثابت نہ ہو جائے۔
اہل تحقیق واہل علم کے اقوال اور ان کا اجماع
امام ابن قیما ابراہیم حربی سے نقل کرتے ہیں کہ ان سے خضر علیہ السلام کی عمر کےبارے میں پوچھا گیا کہ وہ زندہ ہیں تو فرمایا: جو غائب پر حوالے دیتا ہے وہ اس سے انصاف نہیں کرتا اور یہ باتیں لوگوں میں شیطان کی پھیلائی ہوئی ہیں۔
میں کہتا ہوں کہ امام صاحب نے درست فرمایا۔
امام بخاری سے خضر او رالیاس علیہم السلام کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا وہ زندہ ہیں؟ تو فرمایا: یہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ رسول اللہﷺ نے تو فرما دیا: ’’آج جو زمین پر زندہ ہے سوسال بعد ان میں سے کوئی بھی نہیں بچے کا۔‘‘
امام ابن کثیر نے البدایہ (1؍ 336) میں ان دو حدیثوں کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ امام ابن جوزی فرماتے ہیں: ’’یہ صحیح حدیثیں حیات خضر علیہ السلام کے دعویٰ کی جڑ کاٹ ڈالتی ہیں، کہتے ہیں کہ خضر علیہ السلام نے اگر نبی ﷺ کا زمانہ نہیں پایا جیسے کہ خیال ہے اور یہ خیال ترقی کر کے قوۃ میں قطعی بن جاتا ہے تو کوئی اشکال نہیں۔
اور اگر انہوں نے آپﷺ کا زمانہ پا لیا تھا اس حدیث کے تقاضے کے مطابق سو سال بعد وہ زندہ نہیں رہے تو اب وہ موجود نہیں ہیں کیونکہ وہ اس عموم میں داخل ہیں اور اصل عدم تخصیص ہے جب تک کہ قابل قبول صحیح دلیل ثابت نہ ہو جائے۔
اکثر علماء سے جب اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اس آیت سے جواب دیا:
﴿وَما جَعَلنا لِبَشَرٍ مِن قَبلِكَ الخُلدَ ...﴾ سورة الانبياء
’’آپ سے پہلے کسی انسان کو بھی ہم نے ہمیشگی نہیں دی کیا اگر آپ مر گئے توۃ وہ ہمیشہ کے لیے رہ جائیں گے۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے یہی سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا، اگر خضر علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان پر رسول اللہ ﷺ کے پاس آنا ، آپ کے ساتھ جہاد کرنا اور آپ سے سیکھنا ضروری تھا، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے بدر کے دن فرمایا: اے اللہ! اگر یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو پھر زمیں تیری عبادت نہ ہو گی۔‘‘
اور وہ تین سو تیرہ معروض اشخاص تھے جن کے نام سمیت ولدیت اور قبیلے کے معلوم تھے۔ تو اس وقت خضر علیہ السلام کہاں تھے، یہ ہے علم کی بات۔
امام علی بن موسی الرضا کہتے ہیں: ’’ خضر علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں امام ابراہیم بن اسحاق الحربی، ابو الحسنین المناوی دونوں کا یہی قول ہے اور یہ دونوں امام ابن مناوی اس قول کو برا سمجھتے تھے کہ خضر علیہ السلام زندہ ہیں۔ قاضی ابو یعلیٰ بھی امام احمد بن حنبل کے اصحاب سے ان کی موت کا قول نقل کرتے ہیں۔
امام ابن کثیر نے البدایہ (1؍ 336) میں ان دو حدیثوں کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ امام ابن جوزی فرماتے ہیں: ’’یہ صحیح حدیثیں حیات خضر علیہ السلام کے دعویٰ کی جڑ کاٹ ڈالتی ہیں، کہتے ہیں کہ خضر علیہ السلام نے اگر نبی ﷺ کا زمانہ نہیں پایا جیسے کہ خیال ہے اور یہ خیال ترقی کر کے قوۃ میں قطعی بن جاتا ہے تو کوئی اشکال نہیں۔
اور اگر انہوں نے آپﷺ کا زمانہ پا لیا تھا اس حدیث کے تقاضے کے مطابق سو سال بعد وہ زندہ نہیں رہے تو اب وہ موجود نہیں ہیں کیونکہ وہ اس عموم میں داخل ہیں اور اصل عدم تخصیص ہے جب تک کہ قابل قبول صحیح دلیل ثابت نہ ہو جائے۔
بعض اہل علم نے یہ دلیل بیان کی ہے اگر وہ (خضر) زندہ ہوتے تو ان کے لیے نبی ﷺ کے پاس آنا واجب تھا کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان کے لیے سوائے میری اتباع کے اور کوئی گنجائش نہیں تھی، تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ (خضر) علیہ السلام زندہ ہوں اور آپ کےساتھ جمعہ جماعت میں شریک نہ ہوں اور آپ کے ساتھ جہاد نہ کریں۔ آپ دیکھتے نہیں کہ جب عیسیٰ علیہ السلام زمین پر اتریں گے تو وہ اس امت کے امام کے پیچھے نماز پڑھیں گے تاکہ ہمارے نبی ﷺ کی نبوت میں خلل نہ آئے۔
امام ابو الفرج بن الجوزی فرماتے ہیں کہ جو ان کے وجود کو ثابت کرتے ہیں ان کی سمجھھ حقیقت سے بہت دور ہے، انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ اثبات شریعت مطہرہ کے اعراض کو متضمن ہے۔
عقلی دلائل:
پہلی دلیل: یہ تقول علی اللہ ہے جو بنص قرآن حرام ہے۔
دوسری دلیل: اگر وہ اتنا لمبا طرصہ زندہ رہے تو اللہ تعالیٰ یہ ہمیں ضرور بیان فرماتے کیونکہ یہ عجیب خبر ہے۔
تیسری دلیل: اگر وہ نوح علیہ السلام سے پہلے موجود ہوتے تو ثابت ہوا کہ نوح علیہ السلام کی کونسل کے علاوہ کوئی بھی باقی نہیں رہا۔
چوتھی دلیل: ان کو زندہ ماننے والوں کی زیادہ سے زیادہ دلیل منقول حکایتیں ہوتی ہیں جس میں کوئی شخص خضر علیہ السلام کو دیکھنے کی خبر دیتا ہے، تعجب ہے خضر علیہ السلام کی کوئی علامت ہے جس سے دیکھنے والا اسے پہچان لیتا ہے۔
پانچویں دلیل:
اگر وہ زندہ ہوتے تو جنگلوں میں حوش وطیور کے درمیان مارے مارے پھرنے سے یہ بہتر تھا کہ وہ کافروں سے جہاد کرتے ، فی سبیل اللہ سرحدات کی حفاظت کرتے، جمعہ و جماعات میں شریک ہوتے اور علم دین سکھاتے۔ حیاۃ خضر علیہ السلام کی بڑے بڑے علماء نے مبسوط تردید کی ہے جیسے امام ابن قیم نے المنار المنیف فی الصحیح والضعیف بتحقیق ابو غدۃ ص :27 میں اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری (6؍309) میں۔
اور الاصابہ : (1؍ 428) میں اور حافظ ابن کثیر نے البدایۃ والنہایۃ : 1؍ 325۔337 میں۔
امام ابن جوزی نے موت خضر اور ان کو زندہ ثابت کرنے والوں کی تردید میں ’ عجالة المنتظر في حال الخضر‘ نامی تفصیلی کتاب لکھی ہے۔
امام ابن تیمیہ نے ان کی موت کے بارے میں ایک رسالہ لکھا ہے۔
امام علی القاری نے ’کشف الخدر عن امر الخضر‘ تالیف کی ہے اور امام ابن المنار المتوفی 336ھ نے ان کی وفات میں رسالہ لکھا ہے، مراجعہ کریں تفاسیر اہل التحقیق فی سورۃ الکہف۔
امام ابن کثیر نے البدایہ (1؍ 336) میں ان دو حدیثوں کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ امام ابن جوزی فرماتے ہیں: ’’یہ صحیح حدیثیں حیات خضر علیہ السلام کے دعویٰ کی جڑ کاٹ ڈالتی ہیں، کہتے ہیں کہ خضر علیہ السلام نے اگر نبی ﷺ کا زمانہ نہیں پایا جیسے کہ خیال ہے اور یہ خیال ترقی کر کے قوۃ میں قطعی بن جاتا ہے تو کوئی اشکال نہیں۔
اور اگر انہوں نے آپﷺ کا زمانہ پا لیا تھا اس حدیث کے تقاضے کے مطابق سو سال بعد وہ زندہ نہیں رہے تو اب وہ موجود نہیں ہیں کیونکہ وہ اس عموم میں داخل ہیں اور اصل عدم تخصیص ہے جب تک کہ قابل قبول صحیح دلیل ثابت نہ ہو جائے۔
جو کہتے ہیں کہ وہ زندہ ہیں اور ان کی نشانی یہ ہے کہ ان کے انگوٹھے میں ہڈی نہیں ہے ، یہ سب جھوٹے ہیں:
﴿وَلا تَقفُ ما لَيسَ لَكَ بِهِ عِلمٌ ۚ إِنَّ السَّمعَ وَالبَصَرَ وَالفُؤادَ كُلُّ أُولـٰئِكَ كانَ عَنهُ مَسـٔولًا ٣٦﴾...سورة الاسراء
’’جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ، کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے۔)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب