سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(126) اصحابی کالنجوم والا روایت کی تحقیق

  • 11805
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 9117

سوال

(126) اصحابی کالنجوم والا روایت کی تحقیق

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حدیث: «اصحابی کالنجوم بایدیھم اقتدیتم اھتدیتم»

’’میرے صحابہ ستاروں جیسے ہیں جس کی بھی اقتداء کرو گے ہدایت پاؤگے ‘‘

جو لوگوں میں مشہور ہے کیا یہ صحیح ہے ؟ یانہیں‘مدلل ذکر کریں کیونکہ میں صرف دلیل کا تابعدار ہوں۔اخوکم عبدالمجید.


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ حدیث سند اور متن دونوں لحاظ سے موضوع اور باطل ہے جو اہل سنت میں سے کسی جاہل نے شیعہ کی دشمنی میں گھڑی ہے ‘اسی کا بیان مختلف وجوہ سے درج ذیل ہے :

اول وجہ:

رسول الله ﷺ كی طرف منسوب یہ روایت ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم وفضلہ)2/191( میں اور ابن حزم نے الاحکام(6/82)میں ذکر کی ہے، اس میں ایک راوی سلام بن سلیم ہے یا سلام بن سلیمان طویل ہے ۔

ابن خراش کہتے ہیں : کذاب ہے ،ابن حبان کہتے ہیں یہ موضوع احادیث روایت کرتا ہے اور اس کے ضعیف ہونے پراجماع ہے ،اور اس میں حارث بن غصین ہے جو مجہول ہے اور اس طرح کی روایت خطیب الکفایہ فی علم الروایۃ(ص:48)اور ابن عساکر (7/315/2)میں لاتے ہیں اور اس میں سلیمان بن ابی کریمہ ضعیف ہے ۔

اسی طرح ابن ابی حاتم نے بھی کہا ہے ، اور اس میں جویبر بن سعید ازدی متروک ہے ،اور اس میں ضحاک بن مزاحم ہے اس کی ملاقات ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نہیں ہویئ تو حدیث مقطوع بھی ہے ،اور قسم کی روایت ابن بطۃ الابانہ (4/11/2)میں اور خطیب ضیاء نے المنتقی میں اپنی مرو میں سنی ہوئی احادیث میں ذکر کیا ہے اور اسی طرح ابن عساکر (116/2)نے (6/203/1)میں ۔اس میں نعیم بن حماد ضعیف اورزبدالعمی کذاب ہے اور اسی قسم کی روایت عبدبن حمید نے المنتخب من المسند کہتے ہیں اس کی اکثر ورایتیں موضوع ہیں ، اور اسی طرح ابن حبان نے بھی کہا ہے ۔

یہ اس موضوع حدیث کی سند کے لحاظ سے بحث ہوئی ۔

دوسری وجہ معنی کے لحاظ سے :

یہ حدیث باطل ہے کیونکہ نبی ﷺ نے اختلاف جائز نہیں کیا بلکہ امت کو اتفاق کا حکم دیا ہے ۔اور تفرق و اختلاف سے منع فرمایا ہے صحابہ کی شرعی مسائل میں مختلف آراء تھیں بعض صحیح اور بعض واضح خطا تھی ۔

بطور مثال ثمرہ بن جندب شراب کی بیع جائز خیال کرتے تھے ، ابو طلحہ صائم کے لئے اولوں کا کھانا جائز سمجھتے تھے ، عثمان ،علی،طلحہ اور عبداللہ بن مسعود جنبی کے لئے تیمم جائز سمجھتے تھے ،اور ابوالسنابل فوت ہونے والے شخص کی بیوی کے لئے عدت ابعد الاجلین کا فتویٰ دیتے تھے ۔

سمرۃ بن جندب نے حالت حیض میں رہ جانے والی نمازوں کے اعادہ کا حکم دیا، ابو بکر رضی للہ عنہ سے تعبیر رؤیا میں خطا ہوئی ،عمر رضی اللہ عنہ نے حبشہ کے مہاجرین کو کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے تم سے زیادہ حقدار ہیں ۔

تو کیا ان سارے صحابہ کی ان اخطاء میں اقتداء کرنا جائز ہے جن میں وہ بلا قصد سنت سے چو ک گئے تھےیہ ان کا اجتہاد تھا اور مجتہد کبھی غلطی کر جاتا ہے اورکبھی صحیح بات کو پہنچ جاتا ہے تو ہم حق اور سنت کی اتباع کریں گے اور خطاء میں ان کا قول ترک کر دیں گے، دین یہ ہے اورجو ان کی ہر روایت کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی طرح سمجھتا ہے تو وہ غلطی پر ہے اور صحابہ کے علاوہ ائمہ میں سے کسی مجتہد کے قول کو نبی کے قول کے برابر درجہ دے یا اس پر فوقیت دے تو اس سے بھی بڑی فاحش غلطی ہے، ظالم لوگ اپنے مذہب کی تائید کے لیے اقوال وافعال نبی ﷺ میں بھی تاویل سے گریز نہیں کرتے، بلکہ مذہب کو سنن مصطفیٰ ﷺ کے تابع کرنا فرض ہے، حق ہو تو قبول کرے ورنہ رد کردے۔ کہنے والا کوئی بھی ہو ، ائمہ کرام ﷭ نے یہی حکم دیا ہے۔ جیسے کہ مقدمہ میں گذر چکا ہے۔

تو کیا ان سارے صحابہ کی ان اخطاء میں اقتداء کرنا جائز ہے جن میں وہ بلا قصد سنت سے چو ک گئے تھےیہ ان کا اجتہاد تھا اور مجتہد کبھی غلطی کر جاتا ہے اورکبھی صحیح بات کو پہنچ جاتا ہے تو ہم حق اور سنت کی اتباع کریں گے اور خطاء میں ان کا قول ترک کر دیں گے، دین یہ ہے اورجو ان کی ہر روایت کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی طرح سمجھتا ہے تو وہ غلطی پر ہے اور صحابہ کے علاوہ ائمہ میں سے کسی مجتہد کے قول کو نبی کے قول کے برابر درجہ دے یا اس پر فوقیت دے تو اس سے بھی بڑی فاحش غلطی ہے، ظالم لوگ اپنے مذہب کی تائید کے لیے اقوال وافعال نبی ﷺ میں بھی تاویل سے گریز نہیں کرتے، بلکہ مذہب کو سنن مصطفیٰ ﷺ کے تابع کرنا فرض ہے، حق ہو تو قبول کرے ورنہ رد کردے۔ کہنے والا کوئی بھی ہو ، ائمہ کرام ﷭ نے یہی حکم دیا ہے۔ جیسے کہ مقدمہ میں گذر چکا ہے۔

تیسری وجہ متن کے لحاظ سے:

یہ صحابہ کی تشبیہ ستاروں کے ساتھ درست نہیں ہے صحیح بات کو پہنچنے والوں کی تشبیہ کے ساتھ فاسد تشبیہ ہے کیونکہ جس کا ارادہ ہو جدی کے طلوع ہونے کی سمت کا اور چل پڑے سرطان کے طلوع ہونے کی طرف تو وہ بھٹک جائے گا اور بڑی فاحش غلطی کا مرتکب ہو گا۔ ہر راستے کی راہنمائی ہر ستارے سے نہیں مل سکتی تو اس سےثابت ہوا کہ کہ حدیث باطل ہے اور اس کا جھوٹ عیاں اور ساقط الاعتبار ہونا واضح ہے۔

مراجعہ کریں الخلاصۃ لابن الملقن (2؍175) الضعیفہ (1؍78۔85) رقم:58۔63) مشکاۃ (2؍554) اسی لیے معتمد کتب کے مصنفین نے اسے نہیں روایت کیا۔ اگر نجالت چاہتے ہو تو بچ کر رہیں اور غفلت نہیں تدبر سے کام لیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص250

محدث فتویٰ

تبصرے