سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(25) قرآن مجید کو صرف پاک شخص ہی ہاتھ لگائے

  • 11803
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2055

سوال

(25) قرآن مجید کو صرف پاک شخص ہی ہاتھ لگائے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن مجید کو وضو کے بغیر ہاتھ لگانےیا ایک سے دوسری جگہ دوسری جگہ رکھنےکے بارےمیں کیا حکم ہے جب کہ ہاتھ لگانے والے کا جسم پاک ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جمہور اہل  علم کے نزدیک وضو کے بغیر  قرآن مجید کو ہاتھ لگانا جائز نہیں ہے۔ائمہ اربعہ رحمہ اللہ علیہ کابھی یہی قول ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی یہی فتویٰ دیا کرتے تھے کہ قرآن مجید کو صرف پاک شخص ہی ہاتھ لگائے۔ اس سلسلے میں ایک صحیح حدیث بھی موجود ہے کو کہ عمرو بن  حزم رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ نبیﷺ نےاہل یمن کی طرف ایک خط لکھا تھا جس  میں یہ مذکور تھا کہ:

«لايمس القرآن الاطاهر»مواردالظمان الي زوائد ابن حبان حديث793وسنن الدار قطني حديث 433

’’ قرآن مجید کو صرف پاک شحص ہی ہاتھ لگائے۔‘‘

یہ حدیث جید ہے اس کی کئی طرق ہیں جن سے ایک دوسرے کو تقویت حاصل ہوتی ہے اور واجب بھی یہی ہے۔

 اس طرح قرآن مجید کو وہی شخص اٹھائے یاایک جگہ سے دوسری جگہ  منتقل کرے جو پاک ہو یا پھر اسے غلاف وغیرہ سے پکڑے یا قرآن مجید کپڑے وغیرہ  میں لپیٹا ہو تو اسے کپڑے سمیت ہی پکڑے وضو کے بغیر  براہ راست دونوں ہاتھوں سے قرآن مجید کو پکڑنا  صحیح  قول کے مطابق  جائز نہیں ہے جمہور  اہل علم کا بھی یہی مذہب ہے۔

بے وضو شخص کے زبانی قرآن مجید پڑھنے مین کوئی حرج نہیں اور  اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ بے وضو شحص قرآں مجید  کو پکڑرکھا ہو‘ لیکن  جنبی شحص کےلیے  قرآن مجید پڑھنا ہرگز جائز نہیں ہے کیونکہ رسول اللہﷺ کےبارے مین ثابت  ہے کہ ’’جنابت کے علاوہ  کوئی اور چیز آپ کےلیے  تلاوت  سے مانع نہ ہوتی تھی‘‘( ابو داود الطھارہ باب فی الجنب یقرءالقرآن حدیث :229)

امام  احمد رحمہ اللہ نے جید سند کےساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کی روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ بیت الخلاء سےباہر تشریف  لائے آپ نے قرآن مجید کی کچھ تلاوت فرمائی اور فرمایا:

«"هَذَا لِمَنْ لَيْسَ بِجُنُبٍ فَأَمَّا الْجُنُبُ فَلا، وَلا آيَةَ"»مسند احمد:110/1

 ’’یہ اس شخص کےلیے ہےجو جنبی نہ ہو اورجو جنبی ہو وہ قرآن مجید کی ایک  آیت بھی تلاوت  نہیں پڑھ سکتا‘‘

مقصود یہ ہے کہ جو شخص جنبی نہ ہو اور وہ قرآن مجید کی تلاوت نہیں کر سکتا نہ دیکھ کر اور نہ زبانی جب تک کہ وہ غسل نہ کرلے اور جس  شحص کا حدث اصغر ہو اور  وہ جنبی  نہ ہو تو وہ زبانی  پڑسکتا ہے لیکن قرآن مجید کو ہاتھ نہیں لگاسکتا۔

یہاں ایک اور مسئلہ بھی قابل غور ہے ارو وہ یہ کہ کیا حیض اور نفاس والی عورتیں قرآن مجید پڑسکتی ہیں یا نہیں؟اس مسئلہ میں بھی اہل کےدرمیان ہے۔بعض نےکہا کہ نہیں پڑھ سکتیں کیونکہ حیض اور نفاس کی مدت لمبی ہوتی ہے جنابت کی طرح  یہ مدت مختصر نہیں ہوتی کہ آدمی جلد غسل کرکے تلاوت کرسکے جبکہ اس کے برعکس حیض کی مدت تو دس دن یا اس سے زیادہ  تک دراز ہوسکتی  اس طرح نفاس کی مدت طویل ہوتی ہے لہذا حیض اور نفاس والی عورتیں زبانی قرآن مجید پڑسکتی ہیں ۔راجح باب یہی ہے چنانچہ صحیحین میں حدیث ہےکہ نبیﷺ نے حضرت  عائشہ رضی اللہ عنہا سے  جب حج کےموقع پر ان کے ایام  شروع ہوگئے تھے فرمایاتھا:

«فَافْعَلِي مَا يَفْعَلُ الحَاجُّ، غَيْرَ أَنْ لاَ تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي»صحيح البخاري الحيض باب ما تقضي الحائض الماسك كلها الا الطواف بالبيت ح305وصحيح مسلم الحج باب بيان وجوده الاحرام...الخ حديث1211

’’وہ سب کچھ کرو جو حاجی کرتے ہیں ہاں البتہ پاک ہونے تک بیت اللہ کا طواف نہیں کرسکتیں۔‘‘

حاجی قرآن مجید بھی پڑھتاہے اور اس حدیث  میں  نبی اکرم ﷺ نے قرآن مجید  پڑھنے کو مستثنٰی قرار نہیں دیا  تو اس سے معلوم ہواکہ حائضہ کےلیے قرآن مجید پڑھنا جائز ہے اسی طرح آپ نے اسماءبن عمیس رضی اللہ عنہا سے جب انہوں نے حجۃالوداع کے موقع   پر میقات  پر پہنچنے پر  محمدبن ابی بکر کو جنم دیا تھا یہی فرمایا تھا۔ تو اس معلوم ہواکہ نفاس والی عورت بھی قرآن مجید پڑھ سکتی ہےلیکن قرآن مجید کو ہاتھ نہیں لگاسکتی۔ باقی رہی حدیث  ابن عمر رضی اللہ عنہما جس میں یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

«لَا تَقْرَأْ الْحَائِضُ وَلَا الْجُنُبُ شَيْئًا»جامع الترمذي‘ الطهاره باب ماجاء في الجنب والحائض ...الخ‘حدیث :131

’’ حائضہ اور جنبی قرآن میں سے کچھ نہ پڑھیں‘‘

تویہ حدیث ضعیف ہے۔ اس کی اسناد میں  ابن عیاش ہے‘ جو موسیٰ بن عقبہ سے روایت کرتا ہے اور محدثین ابن عیاش کی روایت کو ضعیف قرار  دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اہل شام یعنی اپنے  شہر کے لوگوں سےروایت کرنےمیں جید ہے لیکن اہل حجاز سےروایت کرنے میں ضعیف ہے اور اس کی یہ روایت اہل حجاز سے ہے لہذاضعیف ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص35

محدث فتویٰ

تبصرے