سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(119) دعا کے بعد ہاتھ چہرے پر پھیرنا

  • 11781
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1491

سوال

(119) دعا کے بعد ہاتھ چہرے پر پھیرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دعاء کے بعد ہاتھ چہرے پر پھیرنے کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ابو داود (1/209) رقم (1497) اور بيهقي الدعوات الكبير اور اسی طرح مشكوة (1/205) رقم (2255) میں سائب بن یزید ؓ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ جب دعا کرتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے اور پھر منہ پر پھیرلیتے تھے اور اس کی سند میں ابن لھیعۃ ضعیف اور حفص بن ھاشم مجہول ہے۔ ترمذی میں ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ جب دعا میں ہاتھ اٹھاتے تو منہ پر ہاتھ پھیرے بغیر نیچے نہیں کیا کرتے تھے، اور اس کی سند میں حماد بن عیسی بہت ضعیف ہے۔

امام حاکم نے مستدرک (1/536) میں روایت کیا ہے اور سکوت کیا ہے۔

اور ابوداود (1/209) ابن ماجه (1/181، 866) اور حاكم (1/536) اور طبراني في الكبير (3/98) اور ابن نصير نے قيام الليل (ص: 327) میں اب عباس سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"جب تو اللہ تعالی سے دعا کرے تو ہاتھ کے باطن (ہتھیلیوں) سے دعا کیا کر ہاتھ کی پشت سے دعا نہ کیا کرو اور دعا سے فارغ ہونے کے بعد ہاتھوں کو منہ پر پھیر لیا کرو " اس حدیث کی سند میں ابن حسان راسی منکر الحدیث ہے۔

اس حدیث کو بیہقی نے (2/212) اور حاكم نے (4/270) میں دوسری سندوں سے روایت کیا ہے جو سب کی سب ضعیف ہیں جیسے کہ ارواء (2/179 ، 180) میں ہے ۔ امام بخاری نے الأدب المفرد (ص: 159) میں رقم (609) نکالا ہے کہ حدیث سنائی ابراھیم بن منذر نے وہ کہتے ہیں انہیں حدیث سنائی محمد بن فلیح نے وہ کہتے ہیں مجھے خبر دی میرے والد نے ابی نعیم سے (اور وہ وہب ہے) وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر اور ابن زبیر کو دعا کرتے دیکھا وہ اپنی ہتھیلیاں اپنے چہرے پر پھیر رہے تھے اور اس کی سند صحیح یا حسن ہے اور یہ حدیث اس کے جواز پر دال ہے اور مرفوع روایت کی تائید کرتی ہے۔

اس لیے امام بیہقی نے سنن کبری (2/212) میں کہا ہے ، "دعا سے فراغت کے بعد ہاتھوں کو منہ پر پھیرنا دعائے قنوت میں سلف  میں سے کسی سے مجھے یاد نہیں۔"

اگرچہ نماز کے علاوہ دعا میں بعض سے مروی ہے اور اس کے بارے میں مرفوع روایت بھی آئی ہے اور اس میں ضعیف ہے نماز کے علاوہ بعض کا اس پر عمل ہے لیکن نماز میں عمل نہ کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے اور نہ ہی اثر یا قیاس سے ثابت ہےتو بہتر یہی ہے کہ ایسا نہ کرے اور سلف نے جس پر عمل کیا ہے اسی پر اقتصار کرے کہ ہاتھ تو دعا میں اٹھائے لیکن نماز میں منہ پر ہاتھ نہ پھیرے۔

ابن نصر سے روایت ہے میں نے صاحب الحریر ابو کعب کو ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے دیکھا جب وہ دعا سے فارغ ہوتے تو اپنے ہاتھوں کو منہ پر پھیر لیا کرتے تھے تو میں نے انہیں کہا "آپ نے کسے ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے تو انہیں نے کہا حسن ؒ کو محمد بن نصر ؒ کہتے ہیں میں نے اسحاق ؒ کو دیکھا وہ اس عمل کو ان احادیث کی وجہ سے اچھا سمجھتے تھے۔"

یہ دلائل ہیں اگرچہ ان میں اکثر میں ضعف ہے لیکن ان سے دعا کے بعد ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنے کی اباحت ثابت ہوتی ہے اور علماء کی ایک جماعت نے اسے مکروہ سمجھا ہے کیونکہ اس باب میں وارد مرفوع حدیثیں سب کی سب ضعیف ہیں۔

جیسے کہ امام احمد بن حنبل ؒ فرمایا : جب ان سے وتر میں دعائے قنوت سے فراغت کے بعد ہاتھ منہ پر پھیرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا ، "میں نے اس بارے میں کچھ نہیں سنا۔"

اور ابو داود ؒ کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل ؒ کو دیکھا وہ یہ عمل نہیں کرتے تھے اور کہا عیسی بن میمون نے جو یہ حدیث ابن عباس سے روایت کرتے ہیں اس کی حدیث قابل احتجاج نہیں اور اسی طرح صالح بن حسان بھی جیسے پہلے گزر چکا ۔

اور امام مالک ؒ سے بھی جب اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اس کا انکار کیا اور کہا : مجھے معلوم نہیں ، اور عبد اللہ (ابن مبارک) ؒ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص ہاتھ پھیلا دعا کرتا ہے اور پھر وہ انہیں منہ پر پھیر لیتا ہے تو انہوں نے کہا کہ سفیان ؒ نے اسے مکروہ کہا ہے۔ قیام اللیل (ص: 367) الصحيحة (2/146) رقم (595) العز بن عبد السلامؒ فرماتے ہیں "دعا کے بعد ہاتھوں کو منہ پر پھیرنا جاہل ہی کر سکتا ہے۔"

امام نووی ؒ نے المجموع میں کہا ہے "یہ مندوب نہیں ہے۔"

مراجعہ کریں الأرواء (2/182) والعلل المتناهية و التعليقية (2/357) شيخ الاسلام ابن تيمية نے (22/519) میں کہا : اور ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنے کر بارے میں آپ سے ایک یا دو حدیثیں مروی ہیں لیکن ان سے حجت قائم نہیں ہوتی ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص230

محدث فتویٰ

تبصرے