السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
پشا ور سے کا مرا ن لکھتے ہیں کہ مندرجہ ذیل سوالات کا کتا ب و سنت کی رو شنی میں جوا ب دیں ۔
(1)کیا اسلا م کا نظا م حکو مت جمہوریت ہے اگر نہیں تو اہل حدیث اس کے علمبردار کیوں ہیں ؟
(2)حدیث کی اقسا م ضعیف مو ضو ع وغیرہ رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضع نہیں کیں اہل حدیث اسے کیوں ما نتے ہیں ؟
(3) کیا اسلا م میں شخصی حکو مت جا ئز ہے اگر نہیں تو آپ ایسی حکومتوں کی تا ئید کیوں کر تے ہیں ؟
(4)کیا شا فعی حنفی اور دیگر مسا لک کی عورتوں سے نکا ح جا ئز ہے ؟
(5)ایک آدمی ایک گنا ہ کئی مر تبہ کر تا ہے ہر دفعہ تو بہ کر تا ہے اور اسے چھوڑ نے کا ارادہ کر تا ہے کیا ایسی تو بہ قبو ل ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہم نے متعدد مر تبہ اپنے قا ر ئین کو تو جہ دلا ئی ہے کہ صرف ایسے سوالات کا جوا ب دریا فت کیا جا ئے جو عملی زند گی سے متعلق ہو ں اور ان کی تعداد بھی زیا دہ سے زیا دہ تین ہو نا چا ہیے آپ حضرات اپنے وقت کا احسا س کیا کر یں کیونکہ اس کے متعلق بھی قیا مت کے دن با ز پرس ہو گی اب تر تیب وار سوالات کے مختصر جوا با ت ملا حظہ فر ما ئیں ۔
(1)مغر بی جمہور یت اسلا م کا نظا م حکو مت نہیں ہے جس کی بنیا د یہ ہے کہ عوام کی حکو مت عوام کے ذر یعے عوام کے لیے اس قسم کی جمہوریت کا کو ئی بھی اہل حدیث علمبردار نہیں ہے اسلا م کا نظا م حکو مت شو را ئی ہے اور ہم اس کی لو گو ں کو دعو ت دیتے ہیں ہما ر ے نز دیک وہی نظا م حکو مت بہتر ہے جو اسلا م کے تا بع ہے ۔
(2)حدیث کی مذکو رہ اقسا م کی بنیا د کتا ب و سنت پر ہے ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے :" ایما ن وا لو ! اگر تمہا رے پا س کو ئی فا سق اہم خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو ۔(49/الحجرت :6)
اسی تحقیق اور چھا ن پھٹک کے نتیجہ میں ضعیف مو ضو ع وغیرہ معرض وجود میں آئی ہیں محد ثین کرا م کا یہ مقو لہ بڑی اہمیت کا حا مل ہے کہ اگر سند نہ ہو تی تو حدیث کے متعلق ہر انسا ن جو چا ہتا کہہ دیتا ۔حضرت عمر فا رو ق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی احا دیث کے سلسلہ میں مثبت سے کا م لیا ہے ہم اہل حدیث بھی اسی اصول کو بر و ئے کا ر لا تے ہیں اور حدیث کی اقسام تسلیم کر تے ہیں ۔
(3)اگر کو ئی حکو مت عدل و انصا ف اور شر یعت کا نفا ذ کر تی ہے تو وہ اسلا می حکو مت ہے قطع نظر کہ وہ شخصی ہے یا غیر شخصی اسلا می ہو نے کا دارو مدا ر اس کے جمہو ر ی اور ملو کیت پر نہیں بلکہ اسلا می قا نو ن کی با لا دستی پر ہے ہما ر ی تا ئید کی بنیا د یہی کتا ب و سنت کی با لا دستی ہے ۔
(4)حنفی شا فعی مسلما ن ہیں ان سے شا دی بیا ہ کیا جا سکتا ہے بشر طیکہ شرک کا ارتکا ب نہ کر یں دیگر مذا ہب میں سے صرف اہل کتا ب کی عورتوں سے شا دی کر نے کی اجا زت ہے بشر طیکہ مسلما ن خا و ند کے ان سے نکا ح کے بعد اخلا ق متا ثر ہو نے کا اند یشہ نہ ہو قرآن کر یم نے اس پہلو کومد نظر رکھنے کا واضح اشارہ دیا ہے ۔
(5)تو بہ کی شر ائط یہ ہیں اعترا ف جر م اظہا ر ندا مت اور اخلا ص کے ساتھ اصلا ح کر دار کا عز م با لجزم اور اگر ما لی معا ملہ ہے تو اس کا درست کر نا اگر ان شرا ئط کو ملحو ظ رکھتے ہو ئے تو بہ کی ہے امید ہے کہ اللہ کے ہاں شر ف قبو لیت سے نو ازی جا ئے گی اس طرح دو با رہ گناہ کر نے پر بھی انہی شر ائط کو مد نظر رکھتے ہو ئے تو بہ کی جا سکتی ہے اگر گنا ہ کر تے وقت شرو ع ہی سے نیت خرا ب ہو تو یہ تو بۃ الکذا بین ہے جس کا اللہ کے حضور کو ئی اعتبا ر نہ ہے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب