السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تحصیل چیچہ وطنی سے ایک صا حب در یا فت کر تے ہیں کہ قیامت کے دن انسا ن کو با پ کی طرف سے منسوب کر کے آواز دی جائے گی ما ں کی طرف منسو ب کر کے پکا را جائے گا ؟ واضح رہے کہ باپ کی طرف منسو ب کر کے پکا ر ے جا نے کی روا یت صحیح نہیں ہے جیسا کہ امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے اس وضا حت کی ہے اس کے متعلق ہما ر ی راہنما ئی کر یں ۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال میں ذکر کر دہ روا یت حسب ذیل ہے : "قیا مت کے دن تمہیں تمہا رے با پ کے نا م سے پکا را جا ئے گا لہذا اچھے نا مو ں کا انتخا ب کیا کرو ۔ (دارمی :کتا ب الاستیذان :ابو داؤد:کتا ب الاد ب :مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ :ص 5/ 194)
اس روایت کا دا رو مدا ر ایک راوی عبد اللہ بن ابی زکر یا رضی اللہ تعالیٰ عنہ الخزا عی پر ہے جس کے متعلق اما م ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابو الد رد اء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملا قا ت نہیں کی حا فظہ منذری اس کے متعلق مز ید وجا حت کر تے ہیں کہ عبد اللہ بن ابی زکر یا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ابو یحییٰ ہے خو د ثقہ اور عا بد ہیں لیکن حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کا سما ع ثا بت نہیں ہے اس بنا پر یہ حد یث منقطع ہے (مختصر ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ )
اگر چہ علا مہ نو وی رحمۃ اللہ علیہ اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ ابو داؤد نے اس روایت کو جید سند سے بیا ن کیا ہے اور مشہو ر ہے کہ عبد اللہ بن زکر یا رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابودرد اء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس حدیث کو سنا ہے (شرح مہذب ) لیکن صحیح با ت یہی ہے کہ یہ حدیث سند کے لحا ظ سے کمزور ہے جیسا کہ خو د امام نو وی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کے حو الہ سے لکھا ہے لہذا اس طرح کی رو ایت کو روایت کو بطو ر دلیل نہیں پیش کیا جا سکتا ہے البتہ امام المحد ثین حضر ت بخا ری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ کو ایک اور اندا ز سے ثابت فر ما یا ہے چنا نچہ انہوں نے ایک با ب با یں الفا ظ قا ئم کیا ہے کہ لو گو ں کو ان کے با پ کے نا م سے پکا را جا ئے گا امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کے مفہو م کو عنوا ن کے طو ر پر ذکر کیا ہے کیوں کہ وہ حدیث ان کی شر ائط کے مطا بق نہ تھی پھر بطو ر دلیل ایک اور حدیث کو پیش کیا ہے کہ قیا مت کے دن غداری کر نے والے پر ایک جھنڈا لہرا یا جائے گا اور اعلا ن کیا جا ئے گا یہ فلا ں بن فلا ں کی غداری کی وجہ سے ہے ۔(صحیح بخا ری کتا ب الادب )
اس حدیث میں غدا ری اور بے وفا ئی کی مذمت بیا ن کی گئی ہے اور اس با ت کی بھی نشا ندہی کی گئی ہے کہ قیا مت کے دن انسا ن کو اس کے باپ کی طرف منسو ب کر کے آواز دی جا ئے گی ۔(فتح البا ر ی : 10/69)
ابن بطا ل اس کی شر ح بیا ن کر تے ہو ئے لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے ان لو گوں کی تر دید ہو تی ہے جن کا مو قف ہے کہ قیا مت کے دن ستر پو شی کے طو ر پر انسا نو ں کو ان کی ما ؤں کی طرف منسوب کر کے پکا را جائے گا اس قو ل مر ددو کی تا ئید ایک حدیث سے بھی ہو تی ہے جسے امام طبرا نی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت کیا کہ قیا مت کے دن لو گوں کو ان کی ما ؤں کے نا م سے پکا را جا ئے گا تا کہ نا جا ئز اولا د کے با پوں پر ستر پو شی ہو سکے یہ حدیث عقل اور نقل کے لحا ظ سے نا قا بل اعتبا ر ہے کیوں کہ زا نی کو عقلی شر عی اور قا نو نی طو ر پر کسی وقت بھی تسلیم نہیں کیا گیا ہے اگر عورت شا دی شدہ ہے تو خا وند کے گھر جو اولا د پیدا ہو گی اس کی نسبت خا وند کی طرف کی جا ئے گی خوا ہ وہ اس کے نطفہ سے نہ ہو حدیث میں ہے ۔ الو لد للفراش وللعا ہر الحجر(صحیح بخا ری )
زانی کے حصہ میں تو پتھر ہیں البتہ بچے کی نسبت خا و ند کی طرف ہو گی ۔ اگر خا وند اس کا انکا ر کر دے تو لعا ن ہو نے کی صورت میں ما ں کی طرف منسوب کیا جا ئے گا اس زا نی کی طرف نسبت نہیں ہو گی ویسے یہ حدیث فنی لحا ظ سے صحیح نہیں حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس کے متعلق کہتے ہیں سندہ ضعیف جدًا"(فتح البا ری :10/79)
اس کی سند انتہا ئی کمزور ہے اس مو ضو ع پر حا فظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تفصیل سے لکھا ہے ۔(تہذیب السنن : 7/ 250)
ان قرائن اور شواہد کے پیش نظر ہما را مو قف یہ ہے کہ قیا مت کے دن انسا ن کو اس کے با پ کے نا م سے پکا را جا ئے گا اور صرف مندرجہ ذیل کی نسبت ما ں کی طرف ہو گی ۔
(1)حضرت عیسیٰ علیہ السلام
(2) لعا ن شدہ بیوی خا و ند کا متنا زعہ بچہ بھی ما ں کی طرف نسبت کر کے پکا را جا ئے گا ۔
(3)غیر شا دی شدہ ما ں کی اولا د بھی زا نیہ کی طرف منسو ب ہو گی
جب زا نی انسا ن کو کو ئی شر عی اور قا نو نی حیثیت نہیں ہے تو قیا مت کے دن ان کی پردہ پو شی کی قطعاً کو ئی ضرورت نہیں ہے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب