السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محمد یونس بذریعہ ای میل سوال کرتے ہیں کہایاکوئی مسلمان تندرستی کی حالت میں اپنی محنت سے کمایا ہوا سارا مال جسے چاہے دے سکتا ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعا لیٰ نے انسان کو مختا ر بنا کر میں بھیجا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شریعت کے دا ئرہ میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عطا کر دہ نعمتوں کو جیسے چا ہے استعما ل کر سکتا ہے ما ل و جا ئیداد بھی تصرف کر نے کا اسے پو را پو را حق ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فر ما ن ہے ہر ما ل دار اپنے ما ل میں تصرف کر نے کا زیا دہ حق رکھتا ہے ۔(بیہقی:6/175)
اس بنا پر صورت مسئو لہ میں کو ئی بھی مسلما ن تند رستی کی حا لت میں اپنا ما ل جسے چا ہے دے سکتا ہے لیکن مندرجہ ذیل با توں کا خیا ل رکھے ،
(1)یہ تصرف کسی نا جا ئز اور حرا م کا م کے لیے نہ ہواور نہ ہی حرا م کاری کے لیے کسی کو دیا جا ئے ۔
(2)جا ئز تصرف کر تے وقت کسی شرعی وارث کو وراثت سے محروم کر نا مقصود نہ ہو ،
(3)اگر تصرف بطو ر ہبہ اولا د کے لیے ہے تو نر ینہ اور ما د نیہ اولا د کے سا تھ مسا و یا نہ سلوک کیا جا ئے ۔
(4)اگر یہ تصر ف بطو ر وصیت عمل میں آئے تو کل جا ئیداد کے کے 3/1سے زیا دہ نہ ہو نا چا ہیے اور وصیت شر عی وارث کے لیے بھی نہیں بھی نہیں ہو نی چا ہیے شر ائط با لا کو ملحو ظ خا طر رکھتے ہو ئے اپنی زندگی میں بحا لت تندرستی اگر کو ئی اپنی تما م جا ئیداد دینا چا ہتا ہے تو اسے ایسا کر نے کی اجا ز ت ہے ۔ (واللہ اعلم )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب