سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(468) عیسائی کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا

  • 11742
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1251

سوال

(468) عیسائی کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا عیسائی کے ہا تھ کا پکا ہو ا  کھا نا  ہم کھا سکتے ہیں اگرعیسا ئی  ہمارے بر تن  میں کھا نا کھا تے  ہیں  تو اس بر تن  کو کتنی  مر تبہ دھو نا چاہیے  نیز اگر عیسا ئی  سلا م  کے وقت  ہا تھ  بڑھا ئے  تو کیا  مصا فحہ  کر لینا  چاہیے  یا ہا تھ  پیچھے  کھینچ  لیا جا ئے ۔ (عبد المتین  چیچہ وطنی )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح رہے  کہ عیسا ئی کے ہا تھ  کا پکا  ہو ا کھا نا  استعما ل  کیا جا سکتا ہے  بشر طیکہ  وہ صفا ئی و نظا قت  اور  پا  کی  و طہا ر ت  کا خیا ل  رکھے  اس کے متعلق ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے :" کہ آج تمہا ر ے  لیے تمام  پا کیزہ  چیزیں  حلا ل کر دی  گئی ہیں  اور اہل  اکتا ب  کا کھا نا  تمہا ر ے  لیے حلا ل  ہے اور تمہا را  کھا نا ان  کے لیے  حلا ل ہے ۔ (5/ المائد ہ :5)

اس آیت  کر یمہ  میں پا کیزہ چیزوں کے حلال  کر دینے  سے اس با ت  کی طرف  اشا رہ ہے کہ اگر اہل کتا ب  پا کی  و طہا رت  کے قوا نین کی پا بندی  نہ کر یں  تو ان  کے کھا نے  سے پر ہیز  کر نا  چا ہیے  اس بنا پر  ایک عیسا ئی  کی عیسا ئیت  اس کے ہا تھ  کا پکا ہو ا کھا نا استعما ل  کر نے  سے رکا و ٹ  نہین ہونی  چا ہیے  بلکہ  اس کی بد  پر ہیز ی  اور  پا کی پلید ی  میں تمیز  نہ کر نا  رکاوٹ  بن  سکتا  ہے اسی  طرح  عیسا ئی  اگر  کسی  بر تن  میں کھا نا  لیتا  ہے  وہ بر تن  پلید  نہیں ہو جا تا  جسے  دھونے  کی ضرورت  ہو ہا ں  اگر وہ کو ئی نجس  چیز  استعما ل  کر تا  ہے تو  اسے نجا ست  کی وجہ  سے پا ک  کر نا  ضروری  ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے خو د ایک مشر کہ عورت  کے مشکیزہ سے پا نی لے کر استعمال  فر ما یا تھا اس مشکیزہ  کو وہ عورت  خو د بھی استعمال  کر تی تھی   نیز  اگر عیسا ئی  سلام  کے وقت   ہا تھ بڑھا  تا ہے تو اس سے مدسا فحہ  کر نے  مین  چندا ں  حر ج  نہیں ہے  البتہ  عیسا ئی  اور یہو دی  کو ابتدا ء  سلام  نہ کیا  جا ئے  جیسا کہ حدیث  میں ہے  کہ اہل کتا ب  کو سلام  کہنے میں  ابتدا  نہ کر و  اسی طرح  اگر عیسا ئی  السلا م علیکم  کہتا ہے تو اسے جوا ب  میں صرف  علیکم  کہا جائے   احا دیث  میں اس کی  وضا حت  مو جو د  ہے واضح  رہے  کہ ہما ر ے  اور عیسا ئی  کے در میا ن  کو ئی چھوت  چھا ت نہیں  کہ ہم  ان سے  میل جو ل  بند کر دیں  بلکہ  اس معا ملہ  میں ہمیں  حکمت  عملی  سے کا م  لیتے ہیں  ہو ئے  ان کے ساتھ  خندہ  پیشا نی  سے پیش آنا چا ہیے  تا کہ انہیں  دعوت اسلا م  پیش  کر نے کے لیے  را ستہ  ہی ہموار ہو ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:472

تبصرے