السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رمضان کے پہلے عشرے ہی میں صدقۃ فطر ادا کر دینے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زکوٰۃ فطر کی اضافت فطر کی طرف ہے کیونکہ فطر ہی اس کا سبب ہے، اس لئے جب فطر رمضان ہی اس کفارے کا سبب ہے تو یہ اسی کے ساتھ مقید رہے گا، لہٰذا اس سے پہلے ادا نہیں کیا جا سکتا، اس کا افضل وقت عید کے دن نماز عید سے پہلے کا وقت ہے لیکن اسے عید سے ایک یا دو دن پہلے بھی ادا کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں لینے اور دینے والے دونوں کے لیے سہولت ہے۔ اس سے زیادہ ایام قبل بطور پیشگی زکوۃ فطر ادا کرنے کے بارے میں اہل علم کے اقوال میں سے راجح قول یہ ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں۔ گویا اس کے لیے دو وقت ہیں:
(۱) وقت جواز اور وہ عید سے ایک یا دو دن پہلے کا وقت ہے۔
(۲) وقت فضیلت اور وہ عید کے دن نماز سے پہلے کا وقت ہے۔ نماز عید کے بعد تک اسے مؤخر کرنا حرام ہے، اس سے صدقۃ الفطر ادا نہ ہوگا کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے:
«مَنْ اَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ فَهِیَ زَکَاةٌ مَقْبُوْلَةٌ وَمَنْ اَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ فَهِیَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ» (سنن ابي داؤد، الزکاة، باب زکاة الفطر، ح: ۱۶۰۹ وسنن ابن ماجه، الزکاة، باب صدقة الفطر، ح: ۱۸۲۷)
’’جس نے اسے(صدقہ فطر)کو نماز سے پہلے ادا کر دیا تو یہ مقبول زکوٰۃ ہے اور جس نے اسے نماز کے بعد ادا کیا تو اس کا شمار صدقات میں سے ایک عام صدقہ میں ہوگا۔‘‘
اگر آدمی کو عید کے دن کا پتہ نہ چل سکے، اس لیے کہ وہ جنگل میں رہتا ہو یا اس کا علم اسے تاخیر سے ہوپائے یہ یا اس طرح کی دیگر صورتوں میں نماز عید کے بعد بھی صدقہ فطر ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس سے صدقہ فطر ادا ہو جائے گا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب