سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(446) اپنی بیوی ، والدہ اور بیٹی ، بہن سے مصافحہ کرنا

  • 11720
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1380

سوال

(446) اپنی بیوی ، والدہ اور بیٹی ، بہن سے مصافحہ کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سیا لکوٹ  سے منیر  احمد سوال کر تے ہیں  کہ آد می  جب  سفر  سے واپس  آئے تو کیا  اپنی  بیوی  والد ہ بہن  اور بیٹی  سے مصا فحہ  کر سکتا ہے  یا نہیں ؟کتا ب و سنت کی  روسے  جوا ب دیں ۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس  میں کو ئی  شک نہیں ہے کہ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  جب  اپنے  صحا بہ کرام   رضوان اللہ عنہم اجمعین  سے ملا قا ت  فر ما تے تو مصا فحہ  کر تے  تھے حضرت ابو ذر غفاری  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے کسی  نے پو چھا  کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  جب آپ  سے ملا قا ت  فرماتے تو کیا مصا فحہ  کر تے  تھے؟ حضرت  ابو ذر  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ   نے  جو اب  دیا  کہ  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   جب بھی  مجھ  سے ملا قا ت   کرتے  تو مصا فحہ ضرور کرتے تھے ۔ابو داؤد: الدب 5214)

حضرت برا ء  بن عا زب  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کہتے  ہیں کہ ایک  مر تبہ  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھ  سے ملا قا ت  کی  تو  مصا فحہ فر ما یا  میں نے  عر ض  کیا کہ ہم تو اسے عجمی لوگو ں  کا طریقہ  خیا ل  کر تے تھے  اس پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر ما یا :کہ ہم مصافحہ  کر نے کےزیا دہ  حقدار   ہیں :"(فتح البا ر ی :11/66)

حضرت وقتادہ نے انس  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے عرض کیا کہ آیا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اصحاب  میں  مصا فحہ  رائج  تھا تو آپ نے جو اب دیا کیو ں  نہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اصحا ب  جب ملا قا ت  کر تے  تو مصا فحہ  کر تے تھے ۔(صحیح بخاری :6263)

بعض روایا ت  سے معلو م ہو تا ہے کہ اہل یمن  نے اس سنت  انبیا کو زندہ  رکھا تھا  چنانچہ  اہل یمن  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پا س آئے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فر ما یا :کہ ان حضرا ت  نے سب سے پہلے  مصا فحہ  کی سنت  کو زندہ کیاہے ۔(ابو داؤد:5213)

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   سے سوال ہو ا  کہ جب ایک مسلما ن  دوسرے سے ملاقات  کر ے  تو اسے  جھکنا  چا ہیے ؟ فر ما یا :" نہیں بلکہ  ملا قا ت  کر تے  وقت انہیں  مصا فحہ  کر نا چا ہیے ۔(ابن ما جہ :الادب  3701)

اس کی فضیلت  یہ ہے مصا فحہ کر نے سے  گنا ہ جھڑ جا تے ہیں  حدیث  میں  ہے :"کہ جب دو مسلما ن  ملا قا ت کر تے  وقت  مصا فحہ  کر تے ہیں  تو ان  کے الگ  ہو نے  سے پہلے  پہلے اللہ تعا لیٰ  ان کے گنا ہ  معا ف  کر دیتا  ہے ۔(ابو داؤد :الادب  5212)

حضرت براء  بن عا زب  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کہتے ہیں  کہ سلا م  کی تکمیل  یہ ہے  کہ ملا قا ت  کے وقت  اپنے  بھا ئی  سے مصا فحہ  کیا جا ئے ۔(الادب  المفر  د :حدیث  نمبر 968)

حضرت انس  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  اپنے  اسلا می بھا ئیوں  سے مصا فحہ  کر نے کی خا طر ہمیشہ  اپنے  ہا تھ  کو خو شبو  دار رکھتے تھے ۔(الادبالمفرد :حدیث  نمبر 1012)

ان روا یا ت  سے معلو م ہو تا ہے کہ مصا فحہ  کر نے  مین  مرد اور عورت  کی تفریق  درست  نہیں  ہے صرف  اجنبی  عورتیں  اس عمو می  سنت سے مستثنیٰ ہیں ۔(فتح البا ر ی 11/66)

چنا نچہ حضرت عا ئشہ  رضی اللہ  تعالیٰ عنہا  فر ما تی  ہیں کہ رسو ل اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے دست  مبارک  نے کسی  عورت  کے ہا تھ  کو نہیں  چھو  ا تھا  ہا ں  وہ  عورت جس  کے آپ ما لک ہو تے  وہ اس حکم  امتنا عی  سے مستثنیٰ ہے ۔(صحیح بخا ری :الا حکا م 7214)

اس سے مرا د  آپ  کی بیو یا ں  اور لو نڈیا ں  ہیں ۔(عمدہ القا ری :12/460)

 دیگر محر م  عورتیں  مثلا ً:ما ں بہن بیٹی ان  پر قیا س  کی جا سکتی  ہیں ان  سے مصا فحہ  کر نے مین  کو ئی  حر ج  نہیں  ہے البتہ  اجنبی  عورتوں  سے کسی صورت  میں مصافحہ   جا ئز نہیں ہے  حدیث  میں ہے  کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   عورتوں  سے مصا فحہ  نہیں کر تے تھے ۔( مسند امام  احمد :2/213)

ان عورتوں سے مرا د اجنبی  اور غیر  محر م  عورتیں  ہیں جیسا کہ  حدیث  بخاری  میں اس کی وضا حت  ہے چنا نچہ  حا فظ  ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں کہ اس حدیث  کے پیش  نظر اجنبی  عورتو ں  کو ضرورت  کے بغیر  ہا تھ  لگا نا  جا ئز  نہیں  ہے (فتح  البا ری :13/252)

تفصیل  با لا اسے معلو م  ہو ا کہ عورتیں  عورتوں  سے مصا فحہ کر سکتی  ہیں  کیوں  کہ مما نعت  کی کو ئی  دلیل  نہیں  ہے  اور  آدمی  آدمیو ں  سے ملا قا ت کے وقت  مصا فحہ  کر یں  نیز  اپنی  محر م  عورتوں  سے مصا فحہ  کر سکتا  ہے  اور غیر  محر م  اور اجنبی  عورتوں  سے مسا فحہ  کر نے  کی مما نعت  ہے (واللہ اعلم با لصواب )

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:454

تبصرے