سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(445) لے پالک کو اپنے نام سے منسوب کرنا

  • 11719
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2933

سوال

(445) لے پالک کو اپنے نام سے منسوب کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کا مو نکی سے محمد یو سف سوال کر تے ہیں  کہ میر ے  ایک بیٹے کے ہاں اولا د نہیں ہے جبکہ  دوسرے  بیٹے  نے اپنی نوز ائیدہ بچی  میر ے لا ولد بیٹے کو دے  دی ہے  کیا  یہ بیٹا  لے  پالک بیٹی  کی ولدیت  میں اپنا  نا م لکھوا  سکتا  ہے یا نہیں ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دور جا ہلیت  میں جو مسا ئل اصلا ح  طلب  تھے ان میں  سے ایک گود لینے  یا بیٹا  بنا نے  کا مسئلہ  بھی  تھا  عرب  کے لو گ  جس بچے کو  لے  پالک بنا  لیتے  تھے  اسے با لکل  حقیقی  اولا د کی طرح  سمجھا جا تا تھا اسے وراثت بھی ملتی  تھی  اس کی نسبت بھی حقیقی با پ  کی بجا ئے  منہ بو لے  با پ  کی طرف  کی جا تی  ہے اس کے ساتھ  منہ  بو لی  ما ں  اور منہ بو لی بہن  وہی  خلا  ملا رکھتی تھیں  جو حقیقی  بیٹے  اور حقیقی بھا ئی سے رکھا جا تا  تھا  یہ رسم  قدم  قدم  پر نکاح طلا ق وراثت  کے ان قوانین  سے  ٹکرا تی  تھی جو اللہ تعا لیٰ   نے مقرر  فر ما ئے  تھے  یہ رسم  حقیقی  وارثو ں  کا حق  ما ر  کر ایک ایسے  شخص  کو حق دلواتی  تھی  جو سر  ے سے  کو ئی حق  نہ رکھتا  تھا  اور جن  مردوں عورتوں  کے  درمیا ن  رشتہ  نکا ح حلا ل تھا یہ رسم  ان کے با ہمی  نکا ح  کو حرا م  کرتی تھی اور سب  سے بڑھ  کر یہ نقصا ن  تھا  کہ اسلا می قا نو ن  جن  بد اخلا قیوں  کا دروازہ بند کر نا چا ہتا تھا  یہ رسم  ان  کے فرو غ  میں مدد  گا ر  تھی  کیو ں  کہ رسم  کے طو ر  پر منہ  بو لے  رشتے میں خواہ  متنا  ہی تقدس  پیدا  کر دیا  جا ئے بہر حا ل وہ حقیقی رشتے کی طرح نہیں ہو سکتا  اس مصنوعی رشتے   کے تقدس  پر بھرو سہ  کر کے  جب  مردوں  اور عورتوں  کے درمیا ن  حقیقی رشتہ  داروں  کا سا خلا ملا ہو تو  وہ بر ے  نتا ئج  پیدا  کیے  بغیر  نہیں  رہ سکتا  اس لیے اسلا م  نے لے  پا لک  اولا د کو حقیقی اولا د  کی طرح  سمجھنے  کے تخیل  کا قطعی  استیصا ل  کیا ہے  چنانچہ  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے منہ  بولے  بیٹے  حضرت  زید  کو  زید بن  محمد  کہتے  تھے  حا لا نکہ  وہ  حا ر ثہ کے بیٹے  تھے  اللہ تعالیٰ  نے اس رسم  کی با یں  الفا ظ  اصلا ح  فر ما ئی :" اور اس نے تمہا رے  منہ  بو لے  بیٹو ں  کو تمہا را  حقیقی  بیٹا  نہیں  بنا یا  ہے یہ تو  وہ  با تیں ہیں جو تم  اپنے منہ سے نکا ل دیتے ہو ۔(33/الاحزاب :4)اس کی مزید اصلا ح  کر تے ہو ئے فر ما یا :" ان کو ان کے با پوں  کی نسبت  سے پکا ر و یہ اللہ کے نز دیک زیا دہ  منصفا نہ با ت ہے ۔(33/الاحزاب :5)

چنانچہ حدیث  میں ہے کہ اسآیت  کے نزول  کے بعد  لو گ  زید  بن محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بجا ئے  زید بن  حا رثہ  کہنے لگے  (صحیح بخا ری) نیز رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فر ما یا  کہ جس  نے اپنے  آپ کو اپنے با پ  کے علا وہ  کسی اور کا بیٹا  کہا در آنحا لیکہ وہ  جا نتا ہو کہ وہ شخص اس اکا با پ نہیں ہے اس پر جنت حرا م  ہے ۔(صحیح بخا ری)

اس آیت  اور پیش کر دہ  حدیث  کا تقا ضا  ہے کہ کسی شخص کو شر عاً اجازت  نہیں کہ وہ اپنے حقیقی با پ کے سوا کسی اور شخص کی طرف اپنا نسب  منسوب  کر ے ہاں  کسی کو پیا رسے بیٹا کہہ  دینا  اور با ت ہے اس میں شر عاً کو ئی مضا ئقہ نہیں ہے لہذا صورت مسئولہ میں  اس نو زئدا  بچی کی ولدیت  وہی لکھوائی  جا ئے جو حقیقی  ہے  لا ولد  آد می  کو اجا ز ت  نہیں  ہے کہ  ولدیت  کے طو ر  پر اپنا  نا م لکھوا ئے  قرآن  و حدیث  کی روسے  ایسا  کر نا  سخت  گنا ہ  اور  نا پسندیدہ  عمل ہے ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:453

تبصرے