السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
خا نیوال سے محمد علی دریا فت کرتے ہیں کہ سا نپ حلال ہے یا حرام نیز سمندری سا نپ کے متعلق کیا حکم ہے ؟ عا م مشہور ہے کہ سا نپ کا سر الگ کر کے با قی حصہ کھا یا جا سکتا ہے کیا یہ صحیح ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سا نپ کی حلت و حر مت کے متعلق صریح طو ر پر کسی حدیث میں ذکر نہیں ہے البتہ حلا ل و حرا م کے متعلق جو عا م شر عی اصول ہیں ان کی رو سے سا نپ حرا م معلو م ہو تا ہے کیو ں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سا نپ کو قتل کر نے کا حکم دیا ہے (بخا ری ) نیز محرم آدمی پر اس کے قتل کر نے کا کو ئی فدیہ نہیں ہے ( صحیح مسلم ) اسے مو ذی جا نو روں میں شما ر کیا گیا ہے ۔ اس لیے اس کی ایذا رسا نی کی بنا پر اسے ما ڈا لنے کا حکم اس کے حرا م ہو نے کی نشا ندہی کر تا ہے اگر چہ امام ما لک رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اس کی حلت منسو ب ہے ۔(مغنی 8/ 605)
تا ہم دیگر ائمہ کرا م نے ان سے اتفا ق نہیں کیا البتہ سمندری سا نپ کا حکم اس سے الگ ہے کیو ں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمندری جا نو روں کو حلال قرار دیا ہے اس لیے اگر کسی جا نو ر کی زند گی کا دارومدار پا نی اور پانی میں رہنا ہے تو اسے کھا نے مین کو ئی حر ج نہیں ہے البتہ سا نپ کی گر دن اتا ر کر با قی حصہ استعما ل کر نا ایک خو د سا ختہ مسئلہ ہے احا دیث میں اس کا کو ئی ذکر نہیں ہے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب