سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(368) مسجدیں بنانے میں زکوٰۃ کا مال خرچ کرنا

  • 1170
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1661

سوال

(368) مسجدیں بنانے میں زکوٰۃ کا مال خرچ کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسجدیں بنانے میں زکوٰۃ صرف کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور فقیر کون ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

زکوٰۃ صرف انہی آٹھ مصارف میں خرچ کی جائے گی، جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حصر کے طور پر ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

﴿إِنَّمَا الصَّدَقـتُ لِلفُقَراءِ وَالمَسـكينِ وَالعـمِلينَ عَلَيها وَالمُؤَلَّفَةِ قُلوبُهُم وَفِى الرِّقابِ وَالغـرِمينَ وَفى سَبيلِ اللَّهِ وَابنِ السَّبيلِ فَريضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَليمٌ حَكيمٌ ﴿٦٠﴾... سورة التوبة

’’صدقات (یعنی زکوٰۃ وخیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنان صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب مقصود ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے قرض ادا کرنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں (بھی یہ مال خرچ کرنا چاہیے) یہ حقوق اللہ کی طرف سے مقرر کر دیے گئے ہیں اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘

لہٰذا مسجدوں کے بنانے اور علم کے سکھانے وغیرہ میں زکوٰۃ صرف کرنا جائز نہیں ہے اس کے علاوہ  صدقات مستحبہ ان امور ( یعنی مساجد و مدارس) میں صرف کرنا افضل ہے جو زیادہ منفعت بخش، اور باعث ثواب ہیں۔ فقیر جو مستحق زکوٰۃ ہے، اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس حسب زمان ومکان ایک سال کی مدت کے لیے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے ضرورت کی اشیا ء نہ ہوں۔ ممکن ہے کسی زمانے میں اور کسی جگہ ایک ہزار ریال بھی تونگری میں شمار ہوتے ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے کسی زمانے میں اور کسی جگہ ایک ہزار ریال دولت مندی میں شمار نہ ہوتے ہوں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ353

محدث فتویٰ

تبصرے