سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

خط لکھنے یا موبائل میسج کرنے سے طلاق کا حکم

  • 117
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3557

سوال

خط لکھنے یا موبائل میسج کرنے سے طلاق کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

علماء حضرات سے میرا سوال یہ ہے کہ ایک آدمی کو اس کی ماں کہتی ہے کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دو،طلاق دو ،طلاق دو، اور کہتی ہی رہتی ہے۔بار بار ماں کے کہنے پر وہ آدمی اپنی ماں کی بات مانتے ہوئے ایک ورق پر تین بار طلاق،طلاق،طلاق لکھ   دیتا ہے ،کیا اس  لکھنے سے طلاق واقع ہو جاءے گی۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اول:

فقھاء كرام كا اتفاق ہے كہ لكھنے سے طلاق واقع ہو جاتى ہے كيونكہ كتابت حروف ہيں جن سے طلاق كى سمجھ آتى ہے اس ليے يہ نطق اور بولنے كے مشابہ ہوئے؛ اور اس ليے بھى كہ كتابت كاتب كے قول كے قائم مقام ہے.

اس كى دليل يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم رسالت كى تبليغ كرنے كے مامور تھے، اس ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كبھى قول كے ساتھ تبليغ كى اور كبھى لكھ كر، جس كتابت كے ساتھ طلاق واقع ہو جاتى ہے وہ واضح كتابت ہے مثلا كسى كاغذ پر لكھنا يا زمين اور ديوار پر اس طرح لكھنا كہ اسے پڑھا اور سمجھا جا سكے.

ليكن غير واضح لكھائى مثلا ہوا اور فضاء پر يا پھر پانى پر لكھنا، يا كسى ايسى چيز پر جس سے سمجھنا اور پڑھنا ممكن نہ ہو اس سے طلاق واقع نہيں ہوتى، كيونكہ يہ كتابت و لكھائى تو اس كى زبان كى گنگناہٹ كى طرح ہے جو سنائى نہ دے " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 12 / 217 ).

دوم:

جب خاوند اپنى بيوى كو ميسج يا ليٹر ميں " تجھے طلاق " كے الفاظ لكھے چاہے وہ اى ميل ہو يا موبائل ميسج يا ڈاك ليٹر تو اس ميں لكھائى كے وقت خاوند كى نيت كو ديكھا جائيگا، اگر تو وہ طلاق كا عزم ركھتا تھا تو طلاق واقع ہو جائيگى، اور اگر اس نے لكھتے وقت طلاق كى نيت نہ كى تھى بلكہ اس نے بيوى كو پريشان كرنا چاہا تھا يا اس كا كوئى اور مقصد تھا تو طلاق واقع نہيں ہوگى.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" طلاق كے الفاظ كے بغير صرف دو جگہوں پر طلاق واقع ہو گى ايك تو يہ كہ: جو شخص كلام كى استطاعت نہ ركھتا ہو، مثلا گونگا جب اشارہ سے طلاق دے دے تو اس كى بيوى كو طلاق ہو جائيگى، امام مالك، امام شافعى اور اصحاب الرائے كا يہى قول ہے، ان كے علاوہ ہم كسى كا اختلاف نہيں جانتے...

دوسرى جگہ: جب طلاق كے الفاظ لكھے اگر تو اس نے طلاق كى نيت كى تو اس كى بيوى كو طلاق ہو جائيگى، امام شعبى اور نخعى، زہرى، حكم، اور امام ابو حنيفہ، امام مالك كا يہى قول ہے، اور امام شافعى رحمہ اللہ سے بيان كردہ ہے...

ليكن اگر وہ طلاق كى نيت كيے بغير طلاق لكھتا تو بعض علماء كرام جن ميں شعبى، نخعى اور زہرى، حكم شامل ہيں كہتے ہيں كہ طلاق واقع ہو جائيگى.

اور دوسرا قول يہ ہے كہ نيت كے بغير طلاق واقع نہيں ہو گى، امام ابو حنيفہ، امام مالك كا يہى قول ہے، اور امام شافعى سے منصوص ہے؛ كيونكہ كتاب ميں احتمال پايا جاتا ہے، كيونكہ اس سے قلم كا تجربہ بھى ہو سكتا ہے، اور يہ خوشخطى كے ليے بھى ہو سكتا ہے، اور بغير نيت كے گھر والوں كے غم كے ليے بھى " انتہى

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 373 ).

اور مطالب اولى النھى ميں درج ہے:

" اگر طلاق لكھنے والا كہے كہ ميں نے تو يہ كلمات خوشخطى كے ليے لكھے تھے، يا پھر اس سے ميں اپنے گھر والوں كو پريشان كرنا چاہتا تھا، تو اس كى بات قبول كى جائيگى؛ كيونكہ وہ اپنى نيت كو زيادہ جانتا ہے، اور اس نے جو نيت كى تھى طلاق كے علاوہ كسى اور چيز كى بھى محتمل ہے.....

جب وہ اپنى بيوى كو پريشان كرنا چاہتا ہو اور حقيقت ميں نہيں بلكہ طلاق كا وہم دلانا چاہتا ہو تو اس سے طلاق كى نيت والا نہيں بن جائيگا " انتہى

ديكھيں: مطالب اولى النھى ( 5 / 346 ).

شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

ايك شخص اپنى بہن اور بيوى كے ساتھ بيٹھا ہوا تھا تو بہن كو كہنے لگا جاؤ كاغذ اور قلم لاؤ، تو اس نے كاغذ پر " طلاق طلاق " كے الفاظ لكھے اور اسے كسى كى طرف بھى مضاف نہ كيا، تو اس كى بہن كو غصہ آيا اور اس نے قلم لے كر تين بار " طلاق طلاق طلاق لكھا اور كاغذ اپنى بھابھى كى طرف پھينك ديا اور كہنے لگى:

ديكھو ميں نے جو لكھا كيا وہ صحيح ہے ؟

خاوند ان الفاظ سے اپنى بيوى كو طلاق دينے كا ارادہ نہيں ركھتا تھا، تو كيا طلاق ہو جائيگى ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" اگر وہ طلاق كا ارادہ نہيں ركھتا تھا بلكہ صرف لكھنا چاہتا تھا، يا پھر اسكى نيت ميں طلاق كے علاوہ كچھ اور تھا تو مذكورہ عورت كويہ طلاق نہيں ہوئى.

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے ...... " الحديث.

اكثر اہل علم كا يہى قول ہے، بلكہ بعض نے تو اسے جمہور كا قول بيان كيا ہے، اس ليے كہ كتابت كنايہ كے معنى ميں ہے، علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق كتابت و لكھائى سے اس وقت طلاق واقع ہوگى جب وہ طلاق كى نيت كرے.

ليكن اگر لكھائى و كتابت كے ساتھ كوئى ايسا قرينہ پايا جائے جو طلاق واقع كرنے پر دلالت كرتا ہو تو اس صورت ميں طلاق واقع ہو جائيگى.

اور اس مذكورہ حادثہ ميں كوئى ايسى چيز نہيں جو اس پر دلالت كرتى ہو كہ اس نے طلاق دينے كا ارادہ كيا تھا، اصل ميں نكاح باقى ہے اور اس كى نيت پر عمل كيا جائيگا " انتہى

شيخ محمد بر ابراہيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ہم تك آپ كا سوال پہنچا ہے كہ ايك شخص نے اپنى بيوى فلانہ بنت فلاں كوايك طلاق لكھى اور نيچے اپنا نام لكھ كر دستخط بھى كيے ليكن وہ اس سے بيوى كو طلاق دينے كا ارادہ نہيں ركھتا تھا بلكہ اس نے بيوى كو دھمكانے كے ليے يہ كاغذ لكھا تھا تا كہ وہ دوبارہ خاوند كے ساتھ برا سلوك نہ كرے كيا مذكورہ شخص كى جانب سے اس كى بيوى كو طلاق ہو گئى ہے يا نہيں ؟

جواب:

الحمد للہ:

اگر تو معاملہ يہى ہے جو آپ نے بيان كيا ہے كہ وہ اس كتاب و لكھائى سے صريح طلاق كا ارادہ نہيں ركھتا تھا بلكہ اس كى نيت بيوى كو ڈرانا اور دھمكانا تھى تا كہ وہ خاوند كے سا تھ برا سلوك كرنے سے باز آ جائے، اور طلاق مقصد نہ تھا اور نہ مطلقا طلاق كى نيت تھى تو پھر مذكورہ طلاق واقع نہيں ہوگى اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے " انتہى

ديكھيں: فتاوى محمد بن ابراہيم ( 11 ) سوال نمبر ( 3051 ).

شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ سے يہ بھى دريافت كيا گيا كہ:

ايك شخص نے اپنى بيوى كو طلاق كا كاغذ لكھا اور اس كى نيت اپنے گھر والوں كو دھمكانا اور پريشان كرنا تھى تو كيا طلاق واقع ہو جائيگى ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" ہميں تو يہى ظاہر ہوتا ہے كہ يہ طلاق واقع نہيں ہوگى بلكہ اس نے تو اپنے گھر والوں كو پريشان كرنا چاہا تھا، علماء كرام نے بيان كيا ہے كہ اگر كسى شخص نے طلاق كى لكھائى اور كتابت سے خوشخطى، يا پھر اپنے گھر والوں كو پريشان كرنا مقصود لى ہو تو اس كا يہ مقصد قبول كيا جائيگا، اور يہ طلاق واقع نہيں ہو گى.

ديكھيں: شرح زاد المستقنع ( 3 / 3050 ).

جس كسى نے بھى اپنى بيوى كو صريح طلاق كے الفاظ لكھے تو يہ واقع ہو جائيگى چاہے اس نے نيت نہ بھى كى ہون، كيونكہ يہ طلاق ميں صريح تھى؛ اور اگر كوئى كہے:

ميں تو اس خوشخطى يا پھر اپنے گھر والوں كو پريشان كرنا چاہتا تھا " اھـ

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے " انتہى

ديكھيں: فتاوى محمد بن ابراہيم ( 11 ) سوال نمبر ( 3050 ).

 ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

تبصرے