سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(384) منصوبہ بندی کا شرعی حکم

  • 11646
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1772

سوال

(384) منصوبہ بندی کا شرعی حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بہاول پور سے خادم حسین لکھتے ہیں کہ حکومتی سطح پر منصوبہ بندی کے متعلق آج کل بہت پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے۔اس سلسلہ میں عزل کو بطور دلیل پیش کیا  جاتا ہے۔اس کے متعلق بھی صحیح موقف کی نشاندہی کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال واضح ہوکہ تحریک ضبط وولادت کی بنیاد روز اول ہی سے  قوانین فطرت سے تصادم اور احکام شریعت سے بغاوت پر رکھی گئی ہے۔ کیوں کہ اس کے پس منظر میں یہ سوچ کارفرما ہے۔ کہ زمین کے زریعہ پیداوار اور وسائل معاش انتہائی محدود ہیں۔اور اس کے مقابلے میں شرح پیدائش غیر محدود ہے۔لہذا اس''بحران'' پر قابو  پانے کے لئے ضروری ہے۔ کہ بچے کم سے کم  پیدا کیے جائیں تاکہ معیار ذندگی پست ہونے کی بجائے بلند ہو لیکن قرآن کریم سرے سے اس انداز فکر کو غلط قرار دیتا ہے۔اور بار بار اس بات کا اعلان کرتا ہے۔کہ رزق دینا اس کی زمہ  داری ہے۔ جس  نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ وہ صرف خالق ہی نہیں  بلکہ رازق بھی ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' کہ زمین پر چلنے پھرنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے۔جس کا رزق اللہ کے زمے نہ ہو۔''(11/ہود:6)

انسان کاصرف اتنا کام ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ خزانوں سے اپنا رزق تلاش کرنے کے لئے محنت کرے اور یہ تحریک اس لئے  بھی مزاج اسلام کے خلاف ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ کو امت مسلمہ کی سلامتی سے بڑھ کر اور کوئی چیز  عزیز نہیں ہے۔ وہ نہیں  چاہتا کہ   بے شمار دشمنوں میں گھرے ہوئے  مٹھی بھر مسلمان ہر وقت خطرے میں پڑے رہیں۔ اسی لئے وہ مسلمانوں کو اپنی افرادی قوت بڑھانے کے لئے بطور خاص حکم دیتاہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے۔'' کہ تم نکاح کے لئے ایسی  عورتوں کا انتخاب کرو جو زیادہ محبت کرنے کے ساتھ ساتھ بچے زیادہ جننے والی ہوں ۔قیامت کے دن  کثرت امت کی بنا پر تمام انبیاء سے بڑھ کر میں ہوں گا۔''(صحیح ابن حبان7/136)

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلاوجہ مجردانہ زندگی بسر کرنے سے سخت منع فرمایا ہے۔(مسندامام احمد :3/158)

اللہ تعالیٰ نے مرد کو کاشت کار اور عورت کوکھیتی کی حیثیت دی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' کہ عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں۔''(3/البقرہ 223)) کوئی بھی دانشمند اپنی کھیتی کو برباد نہیں کرتا بلکہ اس سے پیداوار لینے کے لئے اپنے وسائل کو بروئے کار لانا ہے لیکن منصوبہ بندی کی  تحریک کامقصداس کھیتی کو بنجر اور بے کار کرنا ہے۔ تحریک تحدید نسل کے حامی اسے مشرف با اسلام کرنے کے لئے عزل کو بطور استدلال پیش کرتے ہیں۔ جیسا کہ سوال میں بھی اس کا حوالا دیا گیا ہے۔ لیکن یہ حضرات اس حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ عزل کا پس منظر ضبط ولادت کے متعلق کوئی عمومی تحریک بپا کرنا نہ تھا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف اوقات میں بعض افراد نے اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر دریافت کیا تھا کہ ان حالات میں مسلمان کے لئے عزل کرنا جائز ہے یا نہیں۔لہذا ضروری ہے کہ اس کے متعلق کچھ تفصیل سے زکر کردیا جائے۔

دور جاہلیت میں اندیشہ مفلسی اور حد سے بڑھے ہوئے جزبہ غیرت کے پیش نظر ضبط ولادت کے لئے قتل کا طریقہ رائج تھا اسلام نے آتے ہی اس ظالمانہ طریقہ کو سختی سے روک دیا مسلمانوں میں چند مخصوص حالات کے پیش نظر عزل کا رجحان پیدا ہوا جس کی درج زیل وجوہات تھیں:

1۔آزاد عورت سے اس لئے عزل کیاجاتاہے۔ کہ ان کے نزدیک اسقترار حمل سے شیر خوار بچے کو نقصان پہنچے کا اندیشہ تھا۔

2۔لونڈی سے اس لئے عزل  کیاجاتاہے۔کہ اس سے اولاد نہ ہو کیوں ہ ایسے حالات میں اسے فروخت نہیں کیا جاسکےگا بلکہ اسے اپنے پاس رکھناہوگا۔

چونکہ ابتداءمیں عزلکے عدم جوازکے متعلق کتاب وسنت میں کوئی صراحت نہ تھی۔اس بنا پر بعض صحابہ کرام رضوان ا للہ عنہم اجمعین  نے اپنے مخصوص حالات کے پیش نطرعزل کی ضرورت محسوس کی۔ اور اس پر عمل کیا جیسا کہ حضرت ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے متعلق روایات میں آیا ہے۔(موطا امام  مالک کتاب الطلاق باب ماجاء فی العزل)

بعض صحابہ کرام رضوان ا للہ عنہم اجمعین کے زریعے جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے سکوت فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی کو رضا پر محمول کرتے ہوئے اس پر عمل کیاگیا جیسا کہ حضرت جابر   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں۔ کہ ہم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں عزل   کرتے تھے۔ اس کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی لیکن اس کے باوجود آپ  ہمیں منع نہیں فرمایا۔(مسلم کتاب النکاح باب حکم العزل)

جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف حالات کے پیش نظر مختلف جوابات دیئے جس کی  تفصیل حسب زیل ہیں:

٭اظہار تعجب کرتے ہوئے  فرمایا:'' کیا تم ایسا کرتے ہو قیامت تک جو بچے پیدا ہونے ہیں وہ تو پیدا ہوکر رہیں گے۔''(صحیح بخاری کتاب النکاح باب العزل)

٭ اگر تم ایسا نہ کرو تو تمہارا کچھ نقصان  نہیں ہوگا۔(صحیح مسلم کتاب النکاح) راوی کہتا ہے کہ ''لا عليكم '' کے الفاظ نہی کے زیادہ قریب ہیں ایک دوسرا راوی کہتا ہے کہ اس انداز  گفتگو کے زریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عزل کے ارتکاب سے ڈانٹا ہے۔

٭ تم ایسا کیوں کرتے ہو؟کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس نفس کو پیدا کرنا ہے وہ ضرور پیدا ہوگا۔(صحیح مسلم کتاب النکاح باب  حکم العزل)

٭ تم چاہو تو عزل کرلو مگر جو اولاد تقدیر میں لکھی ہے  وہ تو ہوکر رہے گی۔(مسند امام احمد :/312)

ان روایات کے پیش نظر اہل علم صحابہ کرام  رضوان ا للہ عنہم اجمعین  اسے  مکروہ خیال کرتے تھے۔(ترمذی کتاب النکاح باب ماجاء فی کراہیۃ العزل)

حضرت عبدا للہ بن عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بھی عزل کواچھا نہیں خیال کرتے تھے۔(موطا امام مالک : کتاب الطلاق باب ماجاء فی العزل)

ان مختلف جوابات میں سے کسی  ایک جواب کو چھانٹ کر اس پر تحریک ضبط تولید کی بنیاد رکھنا عقل مندی نہیں ۔زیادہ سے زیادہ اسے انفرادی طور پر کسی مجبوری کے پش نظر ولادت کے لئے دلیل بنایاجاسکتا ہے ایک عمومی  تحریک جاری کردینے کا جواز ااس سے ثابت نہیں ہوتا ہمارے نزدیک موجودہ تحریک اور عزل میں کئی  طرح سے فرق کیا جاسکتا ہے جس کی تفصیل حسب زیل ہے:

1۔اپنے مخصوص حالات کے بنا پر عزل کرنا بیوی خاوند کا ایک انفرادی معاملہ ہے۔ مثلا ً حمل  ٹھرنے سے عورت کی جان کو خطرہ ہویا اس کی صحت کو غیر معمولی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو ایسے حالات میں اگر کسی ماہر ایمان  دار ڈاکٹر کے مشورہ سے ضبط ولادت کے لئے عزل یا کوئی اور جدید طریقہ اپنا لیا جائے تو جائز ہے۔اور یہ بیوی خاوند کا اپنا ایک پرایئویٹ معاملہ ہے۔ لیکن ایک قومی پالیسی کے طور پر ان کے حقوق پر شبخون مارنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی  اور نہ بطور فیشن اسے عمل میں لانے کی گنجائش ہے۔

© عزل پر عمل کرنے سے حمل کا نہ ہونا یقینی نہیں بلکہ متصور ہے۔ جیسا کہ ایک واقعہ سے ظاہر ہے  احتیاط کے باوجود حمل ٹھر گیا  تھا لیکن منصوبہ بندی کا جو  طریق کار ہے۔ اس سے عمل کرنے سے حمل کا نہ ہونا یقینی ہے۔لہذا عزل کو منصوبہ بندی کے لئے دلیل کے طور پر پیش کرنا یا اس پر قیاس کرنا قیا س مع الفارق ہے۔

3۔جس عورت سے عزل کیا گیا ہو اگر اس کا خاوند  فوت ہوجائے یا اسے طلاق مل جائے تو طلب اولاد کے لئے اس سے شادی کی جاسکتی ہے۔ اس کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ جبکہ بعض حالات میں منصوبہ بندی پر عمل کرنے والی عورت کے  لئے یہ  مشکل پیش آسکتی ہے۔کہ اگر اس نے ہمیشہ کے لئے اولاد نہ ہونے والی ادویات یا آلات استعمال کئے ہیں تو اس سے اولاد کا طلب گار کیونکہ شادی کرے گا۔

اس کے ناجائز اور حرام ہونے کے لئے   یہی کافی ہے کہ اگر تحریک منصوبہ بندی پر عمل کرتے ہوئے وسیع پیمانے پر ایسے طریقوں کولوگوں میں عام کردیا جایا ایسے آلات وادویات کو عام لوگوں کی دسترس تک پہنچادیا جائے۔جن سے مرد اور عورتیں جنسی بے راہ روی سے باہم لذت اندوز ہوتے رہیں مگر استقرار حمل کا اندیشہ نہ ہو جیسا کہ  گلی کوچوں میں اس کے سینٹر کھولے جارہے ہیں تو اس کا انجام کثرت سے بے حیائی اور اخلاقی تباہی کی صورت میں رو نما ہوگا۔جیسا کہ اب وہ ممالک اس کے انجام بد سے چیخ رہے ہیں جن میں اس کا  تجربہ کیاگیا تھا۔

لہذا ایک خود دار اورباغیرت مسلمان کے شایان شان نہیں کہ وہ اس بے دینی اور بے حیائی پر مبنی تحریک کو سہارا دے اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔(آمین)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:394

تبصرے