السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محمدعمر بزریعہ ای میل لکھتے ہیں۔کہ میں نے ایک عورت سے شادی کی جس کے ہمراہ پہلے خاوند سے تین نابالغ بچے بھی تھے۔ان میں ایک جب جوان ہواتو میں نے اپنے اخراجات پر اس کی شادی کردی۔اس لڑکے کے ہاں ایک بچی پیدا ہوئی جو پیدائشی طور پر یرقان کی مریضہ تھی میں چونکہ لاولد تھا اسلئے بچے کے والدین کے ساتھ ایک تحریری معاہدے کے تحت ان کی رضا مندی سے اس بیمار بچی کو میں نے لے لیا اور بہترین ڈاکٹروں کی زیر نگرانی تین دن کی بیمار بچی کا قیمتی علاج کروایا۔ اللہ نے بچی کو روبہ صحت کردیا دو سال کے بعد بچی کے والدین صرف ایک دن کے لئے اپنے گھر لے گئے پھر واپس کرنے سے انکار کریا کیا انہیں شرعی طور پر ایسا کرنے کا حق تھا۔ کیا بچی کی واپسی کا مطلا لبہ کرسکتا ہوں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح رہے کہ کسی کے بچے کو اپنا بیٹا بنانا ور اپنے گھرمیں اکی پرورش کرنا دور جاہلیت میں بھی رائج تھا۔عرب کے لوگ جس بچے کو متبنیٰ(لے پالک) بنا لیتے اسے بالکل حقیقی اولاد کی طرح سمجھتے اور صلبی اولاد کا درجہ دیتے منہ بولے بیٹے کو وراثت بھی ملتی اس سے منہ بولی بہن وہی خلا ملا رکھتی تھی۔ جو حقیقی بیٹے اور حقیقی بھائی سے رکھا جاتاہے۔یہ رسم اسلام کے قوانین ستر وحجاب وراثت اور نکاح وطلاق سے قدم قدم ٹکراتی تھی۔اور بعض اوقات کئی ایک برائیوں اور بد اخلاقیوں کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوتی تھی۔ کیوں کہ اس طرح ایک ایسے شخص کووراثت کاحقدارٹھرادیا جاتا جو سرے سے کوئی حق نہ رکھتا تھا۔ پھر منہ بولے رشتے میں خواہ جتنا تقدس پیدا کردیا جائے وہ کسی صورت میں بھی حقیقی رشتے کی طرح نہیں ہوسکتا اس مصنوعی رشتے کے تقدس پر اعتماد کرکے جب مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط ہوتا تو بُرے نتائج پیدا کئے بغیر نہیں رہ سکتا اس لئے اسلام نے لے پالک کو حقیقی ااولاد کی طرح سمجھنے کے تخیل کوباطل قراار دیا ہے اور اس رسم کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ہمارے ہاں اس سے یہ فائدہ تو ضرور ہوتا ہے کہ بے اولاد انسان اپنے دل بے قرار کو وقتی طور پراطمینان دے لیتا ہے۔ اور لے پالک کے ساتھ تعاون کی بھی کوئی صورت پیدا ہوجاتی ہے مثلا اپنی بیٹی اس کے نکاح میں دے دی جاتی ہے۔ لیکن اکثر بے اولاد حضرات لے پالک کو بھی اپنی حقیقی اولاد کا ہی درجہ دیتے ہیں۔ جو اسلام کو گوارا نہیں ہے۔صورت مسئولہ میں سائل لا ولد تھا اس نے شفقت پدری دینے کے لئے کسی کی بیمار بچی کو ا پنے گھر پالا اور اس کے قیمتی علاج پر اخراجات بھی برداشت کئے شاید حقیقی والدین یہ فریضہ سر انجام نہ دے سکتے۔لہذا اس خدمت کی بجا آوری پر شکر وسپاس کا حقدار ہے لیکن شرعی طور پر چونکہ وہ والدین کی بچی تھی اس لئے معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہ اسے لے گئے ہیں۔ والدین اب اس بات کے پابند ہیں ہیں کہ بچی کے علاج پر اٹھنے والے اخراجات پرورش کنندہ کو واپس کریں اوروعدہ خلافی کی اللہ سے معافی مانگیں محبت ویگانگت کی فضا میں اس معاملے کو حل کریں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب