سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(380) خلع کی صورت میں عورت سے حق مہر زیادہ وصول کرنا

  • 11642
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1476

سوال

(380) خلع کی صورت میں عورت سے حق مہر زیادہ وصول کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گوجرانوالہ سے ابو بکر لکھتے ہیں کہ خلع کی صورت میں عورت سے  حق مہر سے زیادہ مال وصول کیا جاسکتا ہے۔ یا نہیں قرآن وحدیث کی رو سے اس کا جواب درکار ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورت کا اپنے شوہر کو کچھ دے دلاکر اس سے طلاق حاصل کرنا خلع کہلاتا ہے۔ کیاخاوند کو حق مہر سے زیادہ مال وصول کرنے کی اجازت ہے یا نہیں؟اس کے متعلق بعض فقہاء نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اگر عورت قصور وار ہونے کے باوجود طلاق کا مطالبہ کرتی ہے توخاوند کو حق مہر سے زیادہ وصول کرنے کی اجازت ہے۔ لیکن محدثین کرام نے فقہاء کے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا انہوں نے اس بات کو ناپسند کیا ہے کہ جو مال شوہر نے بیوی کودیا ہے اس سے زیادہ کامطالبہ کیاجائےاگرچہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ بیوی خاوند کی باہمی رضا مندی پر موقوف ہے،

معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ بیوی خاوند کی باہمی رضا مندی پر موقوف ہے۔ لیکن احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حکم عام نہیں ہے۔ بلکہ زیادہ  دینے یا وصول کرلینے سے منع کردیا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ جب حضرت ثابت بن قیس انصاری   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی بیوی نے رسول ا للہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے خاوند سے  طلاق لینے کامطالبہ کیا  تو آُپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''کیا تو اس کا حق مہر  میں دیا ہوا باغ واپس کردے گی۔''ثابت بن قیس کی بیوی نے عرض کی کیوں نہیں بلکہ  کچھ زیادہ بھی دوں گی۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :''زیادہ  دینے کی کوئی ضرورت نہیں صرف اس کا باغ ہی واپس لوٹا دے۔''(دارقطنی :3/355)

ایک روایت میں ہے کہ جب  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی بیوی کو اس کا باغ واپس کردینے کے متعلق کہا تو خاوند کو حکم دیا'' کہ اپنا یہ باغ وصول کرلو اور اس سے زیادہ وصول نہ کرو۔''(ابن ماجہ طلاق 2056)

اگرچہ بعض روایات میں اس عورت کی طرف سے زیادہ دینے کے الفاظ بھی ملتے ہیں لیکن رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کی طرف سے حق مہر سے زیادہ کو برقرار نہیں رکھا پھر یہ روایت محدثین کرام کے معیار صحت پر بھی پوری نہیں اُترتی اگر صحیح بھی ہوتو زیادہ دینا عورت کی اپنی صوابدید پر موقوف ہے آدمی کی  طرف سے مطالبے کے پیش نظر ایسا نہیں کیاگیا۔ اس بنا پر خاوند کو چاہیے کہ وہ حق مہر سے  زیادہ وصول نہ کرے جو اس نے بیوی کو دیا ہے۔ ویسے بھی حق مہر سے زیادہ وصول کرنا اخلاقی اصولوں کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔عقل سلیم اس کی اجازت نہیں دیتی۔(واللہ اعلم بالصواب)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:390

تبصرے