سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(362) کیا گھر میں موجود پھل دار درختوں کے پھل پر زکوٰۃ ہے؟

  • 1164
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1872

سوال

(362) کیا گھر میں موجود پھل دار درختوں کے پھل پر زکوٰۃ ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے تین سال پہلے ایک گھر خریدا تھا، جس میں بحمدللہ دو قسم کی کھجور کے تین پھل دار درخت ہیں جن میں بہت زیادہ پھل لگتا ہے۔ کیا مجھ پر ان کی زکوٰۃ واجب ہے۔ اگر جواب اثبات میں ہو، اور لوگوں کو ان مسائل کا علم نہیں ہے، تو میں اس بارے میں کئی سوالات پوچھوں گا۔ اولاًیہ کہ مجھے یہ کیسے معلوم ہوگا کہ کھجوروں کا پھل نصاب کو پہنچ گیا ہے یا نہیں پہنچا؟ ثانیاً:  پھلوں میں زکوٰۃ کا اندازہ کس طرح لگایا جائے گا؟ کیا ہر قسم کی کھجوروں کی الگ الگ زکوٰۃ ادا کی جائے گی یا ان کو آپس میں ملا کر سب کی اکٹھی زکوٰۃ ادا کی جائے گی؟ کیا یہ جائز ہے کہ میں زکوٰۃ نقدی کی صورت میں ادا کروں؟ گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ کے بارے میں کیا کروں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

سائل نے جو ذکر کیا ہے کہ گھر میں کھجوروں کے ان درختوں کے بارے میں کیا حکم ہے جس کا بہت سے لوگوں کو علم نہیں، تو یہ صحیح ہے کہ بہت سے لوگوں کے گھروں میں سات یا دس یا دس سے کم و بیش کھجوروں کے درخت ہواکرتے ہیں جن کا پھل نصاب کو پہنچ گیا ہوتا ہے مگر وہ نہیں جانتے کہ ان میں زکوٰۃ بھی فرض ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ زکوٰۃ صرف کھجوروں کے باغات کی صورت میں  فرض ہوا کرتی ہے، حالانکہ زکوٰۃ تو کھجور کے درختوں کے پھل میں ہے، درخت خواہ باغ میں ہوں یا گھروں میں، لہٰذا کسی ایسے انسان کو لانا چاہیے جو پھلوں کے وزن کا اندازہ لگا سکتا ہو تاکہ وہ اندازہ لگا کر بتائے کہ یہ پھل نصاب کو پہنچا ہے یا نہیں؟ جب نصاب کے مطابق ہو تو پھر اس کی زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے لیکن وہ زکوٰۃ کیسے ادا کرے گا جب کہ وہ ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے جیسا کہ سائل نے کہا ہے کہ میری رائے میں پھل کی قیمت کا اندازہ لگا کر فی صد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کر دی جائے کیونکہ اس میں مالک کے لیے سہولت اور محتاج کے لیے زیادہ نفع ہے، یعنی محتاج کو درہم دے دینا اس کے لیے زیادہ مفید ہے، مالک کے لیے درہموں کی صورت میں قیمت کا اندازہ لگانا آسان ہے۔ پھلوں میں زکوٰۃ کی مقدار پانچ فی صد ہے حالانکہ مال کی زکوٰۃ ڈھائی فی صد ہوتی ہے لیکن اس صورت میں زکوٰۃ پانچ فی صد ہوگی کیونکہ یہ زکوٰۃ پھلوں کی زکوٰۃ سے ہے، سامان تجارت کی زکوٰۃ نہیں۔

گزشتہ سالوں کی اس نے عدم واقفیت کی وجہ سے جو زکوٰۃ ادا نہیں کی تو گزشتہ سالوں کے پھلوں کا وہ خود اندازہ لگا لے اور ان کی اب زکوٰۃ ادا کر دے۔ زکوٰۃ میں تاخیر کی وجہ سے اسے گناہ نہیں ہوگا کیونکہ اسے یہ مسئلہ معلوم نہیں تھا لیکن گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ351

محدث فتویٰ

تبصرے