السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فیصل آبادسےمحمد اشرف لکھتے ہیں۔کہ ایک شخص نے شدید غصہ کی حالت میں اپنی بیوی کو کئی بار طلاق کے لفظ کہے لیکن غصے کی بنا پر اسے پتہ نہیں رہا کہ میں کیا کہہ رہاہوں البتہ ایسے شواہد ملتے ہیں کہ اس نے کہا'' میں اپنی منکوحہ کو طلاق دیتا ہوں اور کچھ شواہد اس بات پر ہیں کہ اس نے یوں کہا'' میرے گھر سے نکل جا بصوررت دیگر میں طلاق دے دوں گا۔ بہرحال غصہ اس قدر شدید تھا کہ خاوند کو ہوش نہ رہا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور میں کیا کررہا ہوں براہ کرم ہماری اس الجھن کو دور کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بحالت غصہ میں دی ہوئی طلاق کے واقع ہونے یا نہ ہونے کے متعلق علمائے امت کااختلاف ہے بعض کا خیال ہے کہ غصہ میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔کیوں کہ حدیث میں ہے کہ بحالت اغلاق نہ طلاق ہوتی ہے اور نہ ہی غلام کو آذاد ی ملتی ہے۔(سنن ابی دائودالطلاق 2193)
اس حدیث میں آمد ہ لفظ''اغلاق'' کا معنی امام احمد بن حنبل سے غضب منقول ہے۔یعنی بحالت غصہ طلاق دینا اور غلام کو آذاد کرنا شرعاً کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اغلاق کا یہ معنی کیا فرماتے ہیں کہ''الاغلاق اظنه في الغضب’’ ابو داؤد كے بعض نسخوں میں بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے۔''باب الطلاق علي غضب’’یعنی بحالت غصہ طلاق دینے کا بیان۔ان حضرات کے نذدیک غصہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق نافذ نہیں ہوتی۔ جب کہ بعض دوسرے علمائے کرام کے ہاں بحالت غصہ دی ہوئی طلاق نافذ ہوجاتی ہے۔ ان کا مؤقف یہ ہے کہ رضا ورغبت اور خوشی سے کوئی بھی طلاق نہیں دیتا بلکہ حالات خراب ہونے پر غصہ میں ہی طلاق دی جاتی ہے۔ اگر غصہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق کااعتبار نہ کیاجائے تو کوئی بھی طلاق مؤثر نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ ہمیشہ طلاق بحالت غصہ میں ہی دی جاتی ہے۔امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اس موضوع پر زرا تفصیل سے گفتگو کی ہے فرماتے ہیں : کہ غصہ کی تین حالتیں ہوتی ہیں۔
یہ وہ حالت ہے جس میں غصہ تو ہوتا ہے۔لیکن انسان کے ہوش وحواس قائم رہتے ہیں اس حالت میں دی ہوئی طلاق بالاتفاق ہوجاتی ہے۔
یہ وہ حالت ہے۔ جس میں شدت غصہ کی وجہ سے انسان کے ہوش وحواس قائم نہیں رہتے اسے کوئی علم نہیں ہوتا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں یا کیسے کر رہا ہوں اس حالت میں دی ہوئی طلاق بالاتفاق نہیں ہوتی۔کیونکہ یہ ایک جنونی کیفیت ہے اور دیوانگی کی ایک صورت ہے اور مجنون اور دیوانہ مرفوع القلم ہے جیسا کہ حدیث میں ہے :'' تین آدمیوں سے قلم اٹھا لیاگیا ہے۔ان میں سے ایک مجنون بھی ہے۔''(مسندامام احمد :6/102)
یہ وہ حالت ہے کہ غصہ کی وجہ سے عقل بالکل تو زائل نہیں ہوتی۔تاہم یہ غصہ اس کی قوت فکر پر اس حد تک اثر انداز ضرور ہوتا ہے کہ اس دوران کی ہوئی کوتاہی پر بعد میں نادم ہوتا ہے۔''(زاد المعاد : فصل الطلاق فی الاغلاق)
آخری صورت محل ہے۔امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ ودیگر حنابلہ کے نزدیک اس درمیانی حالت میں دی ہوئی طلاق بھی واقعہ نہیں ہوتی۔ان کی دلیل مذکورہ بالاحدیث میں ہے جبکہ دوسرے ا س درمیانی حالت میں دی ہوئی طلاق کو نافذ خیال کرتے ہیں۔ہمارے نزدیک مؤخر الذکر علماء کاموقف ہی صحیح ہے۔کیوں کہ طلاق عموماً غصہ میں دی جاتی ہے۔اور درمیانی حالت میں غصہ دیوانگی کی حد تک پہنچتا ہے۔اس حالت میں طلاق دھندہ کو مرفوع القلم قرار دیا جائے۔لہذا اگرغیظ وغضب اس حد تک پہنچ جائے جو انتہائی حالت میں بیان ہوا کہ انسان اپنے آپ سے باہر ہوجائےاور اس کے ہوش وحواس بالکل قائم نہ رہ سکیں۔یہاں تک کہ اسے یہ معلوم نہ ہو کہ میرے منہ سے کیا نکلا ہے۔اور اس کا انجام کیا ہوگا۔تو ایسی حالت واقع نہیں ہوگی۔مگر غصے کی یہ انتہائی حالت شاذونادر ہوتی ہے اور ایسا بہت کم ہوتاہے۔
اس تفصیل کے پیش نظر جب صورت مسئولہ کے ظاہری الفاظ کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ طلاق دھندہ طلاق دیتے وقت انتہائی غصے کی حالت میں تھا۔اس حالت میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔لیکن آیا وہ حقیقتاً ایسا ہی تھا یہ توطلاق دینے والا ہی بہتر جانتا ہے۔لہذا اسے خود سوچنا چاہیے کہ میں طلاق دیتے وقت کس حالت میں تھا حقیقت حال کے خلاف الفاظ تحریر کرکے فتویٰ لے لینے سے حرام شدہ چیز حلال نہیں ہوگی۔حلال وحرام کے معاملہ میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے اگر واقعی طلاق دھندہ نے غصے کی انتہائی حالت میں طلاق دی ہے۔اس کے ہوش وحواس قائم نہیں تھے۔ تو اس صورت میں سرے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔اوراگرغصہ ابتدائی یا درمیانی حالت ہے تواطلاق واقع ہوجائے گی۔بالخصوص جبکہ وہ کئی بار ایسا کرچکا ہے جیسا کہ سوال میں زکر ہے تو وہ اپنی بیوی سے ہمیشہ کے لئے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ بشرط یہ کہ طلاق دینے کا معاملہ مختلف مواقع میں پیش آیا ہو۔اب عام حالت میں صلح کی کوئی صورت نہیں ہے اور اگر ایک ہی مجلس میں ایسا ہواہے تو ایک طلاق ہوگی اورعدت کے اندر اندر رجوع ہوسکے گا۔اگر دودفعہ ایسا ہوا تو بھی رجوع کاحق باقی ہے۔لیکن تیسری دفعہ ایسا کرنے سے رجوع کا حق ختم ہوجاتا ہے۔(واللہ اعلم)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب