السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میاں چنوں سے عبدالمنان سوال کرتے ہیں کہ آیا اپنے دادا کی بھتیجی سے نکاح ہوسکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن کریم نے جن خونی رشتوں کی حرمت کازکر کیا ہے وہ یہ ہیں:مائیں 'بیٹیاں'بہنیں'پھوپھیاں'خالائیں'بھانجیاں ان کے علاوہ دیگرخونی رشتوں کے متعلق ارشادباری تعالیٰ ہے:
''ان کے ماسوا جتنی عورتیں ہیںانہیں اپنے اموال کے زریعے سے حاصل کرنا تمہارے لئے حلال کردیاگیا بشرط یہ کہ حصار نکاح میں ان کو محفوظ کرو نہ یہ کہ آذاد شہوت رانی کرنے لگو۔''(4/النساء:24)
صورت مسئولہ میں جس خونی رشتے کا زکر ہے وہ باپ کی چچا ذاد بہن ہے۔اس کا محرمات میں کوئی زکر نہیں لہذا یہ حلال اورجائز ہے اگر باپ کی حقیقی بہن ہوتی تو یہ رشتہ بنص قرآن حرام تھا لیکن مذکورہ رشتہ اس کے علاوہ ہے۔چونکہ حقیقی پھوپھی نہیں ہے اس لئے اسے نکاح میں لایاجاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ بیٹیوں میں نواسیاں پوتیاں اور پڑپوتیاں تمام شامل ہیں اسی طرح بہنوں میں حقیقی مادری اور پدری بہنیں سب حرام ہیں۔ نیز باپ اور ماں کی بہن خواہ حقیقی ہو خواہ مادری یا باپ شریک بہرحال وہ بیٹے پر حرام ہے۔اسی طرح بھائی اور بہن خواہ سگے ہوں یا سوتیلے یا باپ شریک ان کی بیٹیاں ایک شخص کے لئے اپنی بیٹی کی طرح حرام ہیں۔(واللہ اعلم)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب