السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
شادی کےرسم و رواج کے کھانے اور مٹھائیوں کا کھانا کیسا ہے ؟ جیسے ہلدی مہندی جمعگی وغیرہ قرآن وصحیح احادیث کی روشنی جواب مرحمت فرمائیں۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!شیخ صالح المنجد ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’جائز رسوم‘ اور ’بدعت‘ میں فرق یوں کیا جائے گا کہ: بدعت میں اللہ کا تقرب مقصود ہوتا ہے۔ جبکہ رسوم میں یہ مقصود نہیں ہوتا۔ ’رسوم‘ جو لوگوں میں عرف کا درجہ اختیار کر لیں، ان کے معاملہ میں اصل یہ ہے کہ وہ مباح ہوں گی، ان میں سے کسی چیز کو حرام ٹھہرا دینا جائز نہ ہو گا، الا یہ کہ کوئی صحیح دلیل اُس کے حرام ہونے پر دلالت کرنے والی ہو۔ شیخ ابن عثیمینؒ کہتے ہیں: رسم اور عبادت میں فرق یہ ہے کہ: عبادت وہ ہے جس کا اللہ اور اُس کے رسول نے حکم دیا ہو، کہ اُس کے ذریعے اللہ کا تقرب پایا جائے، اور اُس کے ہاں اجر کی جستجو کی جائے۔ رسم وہ ہے جسے لوگوں نے اپنے مابین معمول ٹھہرا لیا ہو کھانے پینے، رہن سہن، ملبوسات، سواریوں ، معاملات اور اسی جیسے دیگر امور میں۔ مزید ایک فرق یہ ہے کہ: عبادات میں اصل یہ ہے کہ وہ ممنوع اور حرام ہیں جب تک کہ شریعت سے اُس پر دلیل نہ مل جائے کہ وہ (مشروع) عبادات ہیں: جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿أَم لَهُم شُرَكـٰؤُا۟ شَرَعوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللَّهُ...﴿٢١﴾... سورة الشورىٰ
یعنی: ”کیا ان کے کوئی شریک ہیں جو ان کیلئے دین (طریقِ بندگی) صادر کرتے ہیں کہ جس کا اللہ نے حکم نہیں دے رکھا؟“ رہ گئے عادات و رسوم، تو ان میں اصل یہ ہے کہ جب تک کہ شریعت سے اس پر دلیل نہ مل جائے کہ وہ جائز ہیں۔ بنا بریں، لوگ اگر کسی چیز کو اپنے مابین معمول بنا لیں، اور کوئی ان کو کہے: یہ حرام ہے، تو اُس سے اِس بات کی دلیل مانگی جائے گی۔ اُس سے کہا جائے گا کہ اِس بات کی دلیل کیا ہے کہ یہ حرام ہے؟ رہی عبادات، تو ان کی بابت اگر انسان سے کہا جائے کہ یہ بدعت ہے اور وہ کہے کہ ’نہیں یہ بدعت نہیں ہے‘ تو اُس سے کہا جائے گا کہ اِس بات کی کیا دلیل ہے کہ یہ بدعت نہیں ہے، وجہ یہ کہ عبادات اصل ہی یہ ہے کہ یہ منع ہیں جب تک کہ دلیل اِس بات پر نہ آ جائے کہ یہ مشروع ہیں۔ از (پروگرام): لقاءالباب المفتوح (2:72 ) شیخ ابن عثیمین (ایک دوسری جگہ) فرماتے ہیں: بدعت کا تعین جس چیز سے ہو گا وہ یہ کہ:” اِس میں اللہ کیلئے (تعبد) عبادت گزاری کی گئی ہوتی ہے ایک ایسے طریقے کے ساتھ جس کو اُس نے مشروع نہیں ٹھہرا رکھا“، اور اگر آپ کہنا چاہیں تو یہ کہ: اللہ تعالی کیلئے (تعبد) عبادت گزاری کی گئی ہوتی ہے اُس طریقے سے جس پر نبی ﷺ اور آپ کے خلفائے راشدین نہ پائے گئے تھے“۔ پس ہر وہ شخص جو اللہ کیلئے ”تعبد“ کرے ایک ایسے طریقے سے جسے اللہ نے مشروع نہیں ٹھہرا رکھا یا جس پر نبی ﷺ اور آپ کے خلفائے راشدین نہ پائے گئے تھے، تو ایسا شخص مبتدع (بدعتی) ہے، چاہے اِس ”تعبد“ کا تعلق اللہ کے اسماءو صفات کے ساتھ ہو، یا اُس کے احکام کے ساتھ، یا اُس کی شرع کے ساتھ“۔ رہ گئے رسم و رواج، جن کا تعلق عرف اور لوگوں کے اختیار کردہ معمولات سے ہے، تو ان کو ”دین کے اندر بدعت“ نہیں کہا جائے گا، اگر لغت میں ان کو بدعت کہہ دیا جائے، مگر یہ دین کے اندر بدعت نہ ہو گی اور یہ وہ چیز نہیں ہو گی جس سے رسول اللہ ﷺ نے خبردار فرمایا ہے۔ مجموع فتاویٰ و رسائل ابن عثیمین (2:292) شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: انسانی تصرفات خواہ وہ اقوال ہوں یا افعال، دو قسم کے ہیں: ایک عبادات، جن سے ان کا دین سنورتا ہے۔ دوسری عادات، جن سے ان کو دنیا میں واسطہ پڑتا ہے۔ اصولِ شریعت کا استقراءکریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ”عبادات“ جن کو اللہ تعالیٰ نے واجب یا مستحب ٹھہرایا ہے وہ تو ثابت نہیں ہوتیں سوائے اس کے کہ شریعت خود بتائے۔ رہ گئے عرف و عادات تو یہ وہ اشیاءہیں جن کو لوگوں نے دنیا (کے امور) میں اپنی ضرورت کے تحت آپس میں اختیار کر لیا ہے۔ اِن میں اصل عدم ممانعت ہے، پس اِس صنف میں سے کسی چیز کی ممانعت نہ کی جائے گی، سوائے کسی ایسی چیز کے جس کی اللہ تعالیٰ نے ممانعت فرما دی ہو۔ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ جلد29: ص16،17) شیخ ابن جبرینؒ کہتے ہیں: عبادات اور عرف وعادات کے مابین فرق ہے۔ عرف و عادات مباح ہیں۔ آدمی کیلئے مباح ہے کہ اپنے لئے جیسی مرضی تعمیر کرے۔ جیسا مرضی پہنے، جیسی مرضی سواری کرے، اور صنعت و حرفت وغیرہ کا جو کام چاہے کرے۔ یہ بدعت نہیں کہلاتیں۔ ’دنیوی بدعت‘ نام کی کوئی چیز نہیں۔ رہ گئیں ’دین بدعات‘ تو وہ سب کی سب سیئہ (بری) ہیں، ان میں کوئی چیز بدعت حسنہ نہیں۔ ایسی کوئی چیز نہیں پائی جاتی جس کو ’بدعتِ جائزہ‘ یا ’بدعتِ مباحہ‘ کہا جائے۔ بلکہ ہر وہ چیز جس کو شریعت کے ساتھ جوڑا جائے گا جبکہ وہ شریعت میں شامل نہیں کر رکھی گئی، تو وہ ناجائز ہے۔ پس رسوم و عادات میں اصل اباحت ہے یہاں تک کہ اُس سے ممانعت کردینے کا (شرعی) سبب سامنے نہ آئے، مثلا یہ کہ اُس رواج میں کوئی چیز ایسی ہو شریعت میں ناجائز ہے، یا مثلاً اُس میں اسراف اور تبذیر ہوتی ہے، یا اُس میں دولت کی نمائش ہے۔ البتہ کسی رسم یا رواج میں اگر ایسی کوئی بات نہیں تو وہ جائز ہی رہے گی۔ پس اوپر گزرنے والے اِس (اصولی) بیان کی بنا پر: اگر یہ شادی کےرسم و رواج کا یہ کھانا اس کے ہاں آنے والے مہمانوں کیلئے تیار کیا جاتا ہے کسی ایسی بات پر مشتمل نہیں جسے اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرا رکھا ہے، اور وہ کسی اسراف یا تبذیر یا دوسروں سے بڑھ کر اپنا دولتمند ہونا ثابت کرنے کیلئے تیار نہیں کیا جاتا، تو وہ جائز ہو گا اور اس میں حرج کی کوئی بات نہیں ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتوی کمیٹیمحدث فتوی |