سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(333) نابالغ بچی کا نکاح

  • 11590
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1662

سوال

(333) نابالغ بچی کا نکاح

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مظفر گڑھ سے محمد اکبر لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی نابالغ بیٹی کا نکاح کردے تو کیا ایسا نکاح درست ہے۔اگر بالغ ہوکر لڑکی اس نکاح کو تسلیم نہ کرے تو شرعی طور پر اس کا کیا حل ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت کی رو سے بچپن کی حالت میں کیا ہوا نکاح صحیح اوردرست ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کا نکاح بھی بچپن کی حالت میں ہوا تھا۔جیسا کہ احادیث میں اس کا زکر موجود ہے۔قرآن مجید نے بھی اس کے متعلق واضح اشارہ دیا ہے۔البتہ نابالغہ کو یہ حق دیاگیا ہے کہ بالغ ہوجانے کے بعد اسے اختیار ہے چاہے  تو سرپرست کے نکاح کو برقرار رکھے یا سے مسترد کردے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی چند ایک لڑکیوں کو ایسے نکاح رد کردینے کا اختیار دیا تھا جوان کی مرضی کے خلاف کردیئے گئے تھے چنانچہ حدیث میں ہے:'' ایک کنواری لڑکی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ میرے باپ نے میری شادی ایسی جگہ پر کردی ہے جسے میں پسند نہیں کرتی ہوں۔  اس پر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا کہ تو چاہے تو اسے برقرار رکھے یا فسخ کردے۔''(ابودائود :کتاب النکاح)

اسی طرح خنساء بنت خذام رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ  میرے باپ نے میری شادی کردی جو مجھے ناپسند تھی میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ نکاح   فسخ کردیا۔''(بخاری کتاب النکاح)

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر سر پرست کسی نابالغہ کا نکاح اپنی مرضی سے کردے اور بلوغت کے بعد وہ لڑکی اسے پسند نہ کرے تو اسے پورا پورا اختیار حاصل ہے۔چونکہ اس دور میں اس اختیار کوغلط طور پر استعمال کیاجاتا ہے۔اس لئے ناجائز مطلب برآری کی روک تھام کے لئے چند ایک شرائط بیان کی جاتی ہے۔

٭ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کے لڑکی کے والدین  یا سرپرست اپنی برادری کی مجبوری یاباہمی ناچاقی کی وجہ سے اپنی لڑکی وہاں آباد نہیں کرنا چاہتے۔جہاں بچپن میں اس کا نکاح ہواتھا لیکن وہ اپنی عزت کو بھی داغدار نہیں کرنا چاہتے۔ اس بنا  پر وہ لڑکی کو''خیار بلوغ''کا فرمادیتے ہیں۔یہ حیلہ اس لئے گارگر نہیں ہے کہ خیار بلوغ عرصہ دراز تک قائم نہیں رہتا۔بلوغ کے عرصہ دراز کے بعد یہ اختیارغیر مؤثر ہوگا لڑکی کو چاہیے کہ اگر وہ اس نکاح کوناپسند کرتی ہے۔ تو سن  شعو ر وتمیز کے بعد اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کردے۔اگر پہلے سے اسے علم نہ تھا تو جب بھی بالغ ہونے کے بعد اسے علم ہوتوفورا اپنے خیار بلوغ کو استعمال کرتے ہوئے اپنی رائے کوظاہرکردے بصیرت دیگر طرفین کی خاموشی سے رضا مندی سمجھی جائے گی جس سے خیار بلوغ ساقط ہوجائےگا۔

٭ صرف خیار بلوغ کے استعمال سے نکاح فسخ نہیں ہوگا بلکہ اس سلسلہ میں عدالت کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے یا اپنے گائوں کے سر کردہ آدمیوں پر مشتمل پنچایت میں اپنا معاملہ پیش کردیاجائے۔جب  تک اپنی پسندیدگی کے اظہار کے بعد عدالت یا پنچایت فیصلہ نہ کرے نکاح فسخ نہیں ہوگا۔(واللہ اعلم)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:351

تبصرے