السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مظفر گڑھ سے عمر فا روق دریا فت کر تے ہیں کہ بچی کی شا دی کب کر نا چا ہیے ہم نے سنا ہے کہ اگر بر وقت شا دی نہ کی جا ئے تو جتنے مخصوص ایا م اپنے والد کے گھر گزارے گی اتنے ہی قتل نا حق والد کے نا مہ اعما ل میں لکھے جا ئیں گے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب بچی بالغ ہو جائے تو منا سب رشتہ ملنے پر اس کا نکاح کر دینا چاہیے اس کے متعلق دانستہ طو ر پر تا خیر کر نا شر عاً درست نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فر ما یا تھا کہ تین چیز وں کے متعلق دیر نہ کر نا ۔
(1)جب نماز کا وقت ہو جا ئے تو اس کی ادائیگی کا فکر ہو نا چا ہیے ۔
(2)جب جنا زہ تیا ر ہو جا ئے تو اس میں بھی دیر نہیں لگا نا چا ہیے ۔
(3)جب بچی کا ہم پلہ مل جا ئے تو اس کے نکا ح میں لیت و نعل نہیں کر نا چا ہیے ۔(ترندی) نیز حدیث میں ہے :"کہ جب رشتہ کے متعلق تم سے کو ئی ایسا آدمی را بطہ کر تا ہے جس کا دین اور اخلا ق تمہیں پسند ہے تو اپنی بچی کا اس سے نکا ح کر دو اگر ایسا نہیں کر و گے تو بہت بڑا فسا د اور عظیم فتنہ بر پا ہو گا ۔(ترندی )
ان احا دیث کے پیش نظر کو ئی بھی با عزت سرپر ست اپنی جو ان بچی کو گھر بٹھا نا گو ار نہیں کر تا بعض اوقا ت حا لا ت اجا زت نہیں دیتے یا منا سب رشتہ نہیں ملتا یا ما لی طو ر پر کچھ کمزو ری ہو تی ہے ایسے حا لا ت میں تا خیر ہو جا ئے تو امید ہے موا خذہ نہیں ہو گا لیکن اگر حا لا ت سا ز گا ر ہو ں منا سب رشتہ بھی ملتا ہے اور شرا ئط پو را اترتا ہے تو تو ایسے حا لا ت میں بچی کی شا دی نہ کر نا جر م ہے اگر بچی سے کو ئی گنا ہ سر زد ہو جا ئے تو والد یا سر پر ست سے ضرور مواخذا ہو گا با قی سوا ل میں ذکر کر دہ ہمارے ہا ں رائج روایت کہ مخصوص ایا م گز رنے کا خو د سا ختہ مفروضہ جہلا کا مسئلہ ہے کہ اتنے ہی قتل وا لد کے کھا تہ میں لکھے جا تے ہیں اس کا حقیقت سے کو ئی تعلق نہیں ہے بہر حا ل ایک عز ت وا ر مسلمان کو چاہیے کہ جب بھی بچی جو ان ہو جا ئے تو اس کے ہا تھ پیلے کر نے کا بہا نہ بنا کر دا نستہ ٹا ل مٹو ل نہ کر ے بلکہ جلد ی اس کا نکا ح کر کے اپنی ذمہ داری سے سبکدو ش ہو جا ئے ،(واللہ اعلم با لصواب )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب