سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(305) عاق نامہ کی شرعی حیثیت

  • 11555
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3292

سوال

(305) عاق نامہ کی شرعی حیثیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

پیراں غائب سے حافظ عبد الرحمٰن سوال کرتے ہیں۔کہ اخبارات میں جو عاق نامہ دیا جاتا ہے۔اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟کیا والد کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے نافرمان بیٹے کو وراثت سے محروم کرسکے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

انسان کے مرنے کے بعد اس کی جائیداد کو تقسیم کرنے کا طریقہ کارخود اللہ تعالیٰ کاوضع کردہ ہے۔اس میں کسی کو  ترمیم واضافہ کا حق نہیں ہے۔جو حضرات قانون وراثت کو پامال کرتے ہوئے آئے دن اخبارات میں اپنی  اولاد میں کسی کے متعلق''عاق نامہ'' کے اشتہارات دیتے ہیں۔ اللہ  تعالیٰ نے انہیں بڑے خوفناک عذاب کی دھمکی دی ہے ہمارے معاشرے میں کہیں تو عورتوں کو وراثت سے مستقل طور پر محروم کر دیا جاتا ہے۔ اور کہیں دوسرے بچوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف بڑے لڑکے کو ہی وراثت کا حقدار ٹھرایا جاتا ہے۔ یہ سب اللہ  تعالیٰ کے وضع کردہ ضابطہ میراث کے خلاف کھلی بغاوت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' کہ مردوں کے لئے اس مال میں حصہ ہے۔جو والدین اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لئےبھی ا س مال میں حصہ ہے۔جو ماں باپ اور رشتہ د اروں نے چھوڑا ہو خواہ وہ مال تھوڑا یابہت ہو اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔''(4/النساء:7)

اس آیت کے پیش نظر کسی وارث کو بلاوجہ شرعی وراثت سے محروم نہیں کیاجاسکتا ۔ماہرین وراثت نے ان وجوہات کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔و وراثت سے محرومی کا باعث ہیں۔ عام  طور پر اس کی دو اقسام ہیں۔ پہلی قسم میں وہ موانع شامل ہیں۔ جو فی نفسہ وراثت سے محرومی کا باعث بنتے ہیں۔ان میں غلامی قتل ناحق اور اختلاف ملت یعنی کفر وارتداد و غیرہ ہیں۔ دوسری قسم میں وہ موانع ہیں جو فی نفسہ تو روکاوٹ کا باعث نہیں البتہ بالتبع محرومی کا زریعہ ہوتے ہیں۔ان میں وارث اور مورث کا اشتباہ برسر فہرست ہے جیسے ایک ساتھ غرق ہونے والے آگ میں جل کر اس دنیا سے ر خصت ہونے والے ہیں اگر ان کے درمیان وراثت کا رشتہ قائم ہوتو ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے۔بشرط یہ کہ پتہ نہ چل سکےکہ ان میں پہلے اور بعد کون فوت ہوا ہے۔احادیث میں بھی اس کی وضاحت ملتی ہے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کاارشاد  گرامی ہے:''جو کسی کی وراثت کو ختم کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مقرر کی ہے اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی وراثت کو ختم کردیں گے۔''(شعب الایمان للبیہقی :ص 14/115)

اسی طرح حضرت انس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے  فرمایا:'' جو اپنے وارث کو حصہ دینے سے راہ فرار اختیار کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا حصہ جنت سے ختم کردیں گے۔''(ابن ماجہ :کتاب الوصایا)

اگرچہ مؤخر الذکر روایت میں ایک راوی زید العمی ضعیف ہے۔تاہم اس قسم کی روایت بطور تائید پیش کی جاسکتی ہے۔مختصر یہ ہے کہ ا گر بیٹا نا فرمان ہے۔تو وہ اپنی سزا اللہ کے ہاں پائے گا۔لیکن والد کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اسے جائیداد سے محروم کردے۔ بعض لو گ محض ڈرانے کےلئے ایساکرتے ہیں لیکن ایسا کرنا بھی کئی ایک قباحتوں کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔لہذا  رائج الوقت ''عاق نامہ'' کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:71

تبصرے