سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(303) اراضی کی تقسیم

  • 11553
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 886

سوال

(303) اراضی کی تقسیم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کسی نامعلوم شخص نے سوال بھیجا ہے۔کہ ہم تین بھائیوں نے اپنےوالد محترم کے ساتھ مل کر ایک قطعہ زمین خریدا  تھا ہمارا چوتھا بھائی عرصہ سے الگ تھلگ  رہتاہے اور اس نے مذکورہ زمین کی خریداری میں کوئی پیشہ بھی نہیں دیا تھا۔ وہ بھی اس قطعہ زمین سے حصہ لینے کا دعوے دار ہے۔وفات کے بعد شرعی طور پر اس زمین میں اس کا کتناحصہ بنتاہے۔نیز ہماری بہنیں د و بہنیں اور والدہ کاحصہ بھی بتادیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

باپ کے پاس  رہنے والی اولاد کی کمائی باپ کی ہی شما ہوتی ہے الا یہ کہ اولاد کا الگ حق ملکیت تسلیم کرلیا جائے۔صورت مسئولہ میں قطعہ زمین خریدتے وقت تینوں بیٹے باپ کے ساتھ شراکت کے طور پر حصہ دار بنے ہیں۔ یعنی ان الگ حق ملکیت  تسلیم کرلیا گیا ہے۔ ایسی صورت حال کے پیش نظر اگر باپ کو تو ضرورت ہوتو وہ قطعہ زمین اپنے لئے رکھ سکتا ہے۔جیسا کہ حدیث میں ہے ''تو اور تیرا مال باپ کے لئے ہے''لیکن باپ کی طرف سے اس قسم کی ضرورت کا اظہار کیے بغیر بھائی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس حدیث کی آڑ میں پورے قطعہ زمین میں سے اپنا حق  لینے کا دعویٰ کرے۔وہ صرف اتنے حصے میں شریک ہوگا جو باپ کا حصہ رسدی ہے۔مثلا اگرزمین خریدتے وقت باپ کاچوتھا حصہ  تھا تو اس کا وہ بیٹا جو زمین خریدنے میں  شریک نہیں ہوا صرف    باپ کےچوتھے حصے میں دوسرے ورثاء کے ساتھ شریک ہوگا۔اب باپ کی  وفات کے بعد  پسماندگان میں اس کی بیوہ دو بیٹیاں اور چار بیٹے ہیں۔اس لئے باپ کی کل جائیداد سے بیوہ کو 8/1 اور باقی 8/7 بیتے اور بیٹیاں اس طرح تقسیم کریں کہ ایک بیٹے کو بیٹی سے دو گنا حصہ ملے۔سہولت کے پیش نظر متوفی کی کل جائیداد کے 80 حصے کرلئے جائیں ان میں آٹھواں حصہ یعنی دس حصے بیوہ کو دیئے جائیں اور باقی 70 حصوں کو  چودہ حصے فی لڑکا ار سات حصے فی لڑکی کے حساب سے تقسیم کردیئے  جائیں۔

 متوفی :80 برابر بیوہ 10 لڑکا 14 لڑکا 14 لڑکا 14 لڑکا 14 لڑکی 7 لڑکی 7(واللہ اعلم بالصواب)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:326

تبصرے