سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(302) جائیداد کو صرف بیٹیوں کے نام کرنا

  • 11552
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1319

سوال

(302) جائیداد کو صرف بیٹیوں کے نام کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ڈھامکے سے حافظ انوار لکھتے ہیں کہ میرے ماموں 1996ء میں فوت ہوئے۔اس وقت تین بیٹیاں تین حقیقی بہنیں بیوی اور بھتیجے بھتیجیاں موجود تھے۔مرحوم نے اپنی تمام جائیداد زندگی میں ہی اپنی بیٹیوں کے نام لگوادی تھی۔پسماندگان کو مرحوم کی جائیداد سے کیا حصہ ملتا ہے۔نیز ان کا بیٹیوں کے نام جائیداد لگوانا اقدام ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زندگی میں اپنے ورثاء کو نظر انداز کرکے کسی ایک وارث کے نام جائیداد لگوانا دینادرست نہیں ہے۔حدیث میں ہے:''کہ جو کسی کی وراثت کو ختم کرتا ہے۔جو اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مقرر کی ہے۔اللہ تعالیٰ  جنت میں ا س کی وراثت کو ختم کردیں گے۔''(شعب الاایمان امام بیہقی :14/115)

اس حدیث کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو یہ حق نہیں دیا کہ اس کے بیان کردہ ضابطہ ور اثت  کی خلاف ورزی کرکے صرف ایک وارث کے نام اپنی  تمام جائیداد لگوادے۔بیٹیوں کو چاہیے کہ وہ محکمہ مال کے ہاں پیش ہوکر اپنے نام جائیداد کے انتقال کو ختم کرائیں۔پھر مندرجہ زیل وضاحت کے مطابق ازسر نو تقسیم کریں۔چونکہ متوفی کی اولاد موجود ہے۔اس لئے بیوی کو تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد سے آٹھواں حصہ ملے گا۔ارشاد باری  تعالیٰ ہے:''اگر تمہاری اولاد ہے تو بیویوں کو تمہارے مال متروکہ میں سے آٹھواں حصہ ملے گا۔''(42/النساء:13)

بیٹیوں کو متوفی کی جائیداد سے دو تہائی ملتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا اشاد ہے:'' اگر لڑکیاں وو سے زیادہ ہوں تو انہیں ترکہ کی دو تہائی ملتی ہے۔''(4/النساء:11)

بہنیں بیٹیوں کی موجودگی میں عصبہ بن جاتی ہیں۔اور انہیں مقررہ حصہ لینے والوں سے بچا ہوا حصہ ملتا ہے۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا فیصلہ ہے کہ آپ نے بیٹی کو نصف پوتی کو چھٹا اور باقی ایک  تہائی بہن کودیا۔(صحیح بخاری :6742)

امام بخاری رحمۃ للہ علیہ  نے اس فیصلہ پر  بایں طور پر  عنوان بندی کی ہے۔:''بیٹیوں کے ساتھ بہنوں کی وراثت بطور عصبہ ہے۔''

بہنیں بھائی کی طرح ہیں۔لہذا ان کی   موجودگی میں بھتیجے بھتیجیاں محروم ہیں۔کل جائیداد کے چوبیس حصے کیے جائیں جن میں سولہ تین بیٹیوں کو تین بیوی کو اور باقی  پانچ تین بہنوں کو دے دیئے جائیں۔

سہولت کے پیش نظر جائیداد کو 72 حصوں میں تقسیم کردیاجائے۔ان سے سولہ سولہ حصے فی لڑکی نو حصے بیوی اور پانچ پانچ حصے فی بہن دے دیئے جایئں یعنی اڑتالیس حصے بیٹیوں کے نوحصے بیوی کے اور پندرہ بہنوں کے ہوں گے۔بھتیجے اور بھتیجیاں متوفی کی جائیداد سے  محروم ہیں اس طرح متوفی کو بھی اخروی نجات مل سکتی ہے۔(واللہ اعلم بالصواب)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:325

تبصرے