سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(296) وراثت سے پوتے پوتیوں کا حصہ

  • 11546
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 881

سوال

(296) وراثت سے پوتے پوتیوں کا حصہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ضیاء الرحمٰن گوہر میانوالی (خریدی نمبر 1540) لکھتے ہیں۔کہ  میرے والد کی دو بیویاں تھیں ایک سے تین لڑکے اور ایک لڑکی جبکہ دوسری سے ایک لڑکا اور د و لڑکیاں ہیں۔بڑا بیٹا باپ کی زندگی میں فوت ہوگیا۔اس کے پانچ لڑکے اور دو لڑکیاں بقید حیات ہیں۔گویا میرے والد جب فوت ہوئے  تو ان کے تین لڑکے تین لڑکیاں اور پانچ پوتے اور دو پوتیاں موجود تھیں۔اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ میرے والد کی جائیداد کیسے تقسیم ہوگی۔نیز بڑے بھائی کی اولاد کو اس سے حصہ ملے گا یا نہیں جبکہ ہمارے ملک رائج الوقت عائلی قوانین کی رو سے دادا کی جائیداد سے مرحوم بیٹے کی اولاد کو حصہ ملتا ہے۔اس کے متعلق فتویٰ درکا ر ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مرنے والا مرتے وقت جس منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد کا مالک تھا اسے بقدر حصہ شرعی ورثاء میں تقسیم کردینا چاہیے۔ہمارے ہاں یہ غلط مشہور ہوچکا ہے۔ کہ  صرف موروثی جائیداد ہی ورثاء میں تقسیم ہوتی ہے اور جو انسان نے خود کمائی ہو یا کسی طرف سے بطور ہدیہ ملی ہو اسے قابل تقسیم خیال نہیں کیا جاتابلکہ اگر زندگی میں کسی جائیداد کا سبب قائم ہوچکا ہواور جائیداد مرنے کے بعد ملے وہ بھی ورثاء میں قابل تقسیم ہے اس  تمہیدی  گفتگو کے بعد چونکہ والد کا بڑا بیٹا والد کی زندگی میں فوت ہوا ہے اس لئے اولاد کی موجودگی میں اس کی جائیداد سے والد کوچھٹا حصہ  ملتا ہے۔جیسا کہ ارشاد باری  تعالیٰ ہے:'' میت کے والدین میں سے ہر ایک کے لئے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصہ ہے بشرط یہ کہ مرنے والے کی اولاد ہو۔''(4/النساء:11)

صورت مسئولہ میں بڑے بیٹے کی اولاد موجود ہے لہذا والد کو اس کی منقولہ وغیر منقولہ جائیداد سے چھٹا حصہ دیا جائے گاوالد کی اپنی ذاتی جائیداد اور بڑے بیٹے کی طرف سے ملنے والا چھٹا حصہ دونوں کو ملا کر ورثاء میں تقسیم کیاجائے گا۔چونکہ شرعی ورثاء میں تین لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں اس لئے جائیداد کو اس طرح تقسیم کیا جائے کہ لڑکے کو لڑکی سے دو گنا حصہ ملے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:اللہ تعالیٰ نے  تمہاری اولاد کے متعلق فیصلہ کیا ہے کہ ایک  لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔''(4/النساء11)

سہولت کے پیش نظر مرحوم کی منقولہ اور غیر منقولہ اور موروثی وغیر موروثی جائیداد کے نوحصے کرلیے جائیں۔دو 'دو حصے تمام لڑکوں کو اور ایک ایک حصہ سب لڑکیوں میں تقسیم کردیاجائے۔اس کی تفصیلی  تقسیم محکمہ مال کی ذمہ داری ہے۔

مرحوم کی جائیداد سے یتیم پوتوں ور پوتیوں کوکچھ نہیں ملے گا۔ کیونکہ شریعت کاضابطہ ہے۔کہ قریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں دور کے رشتہ دار محروم رہتے ہیں پوتوں اور پوتیوں کی نسبت بیٹے اور بیٹیاں زیادہ قریب ہیں۔لہذا حقیقی اولاد کی موجودگی میں بیٹے کی اولاد محروم رہتی ہے ہاں یتیم پوتوں کی وصیت کے زریعہ کچھ دیا جاسکتا ہے بشرط یہ کہ وصیت کسی صورت میں ایک تہائی سے زیادہ نہ ہو اگر دیگر ورثاء انھیں وصیت کے بغیر کچھ دینے پر راضی ہوں تو ا س میں کوئی حرج نہیں ہے رائج الوقت عائلی قوانین کےسہارے دادا کی جائیداد سے حصہ لینا اس کا مطالبہ کرنا شرعا جائز نہیں اگر ایسا کیا تودوسروں کاحق غصب کرنے کے مترادف ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:321

تبصرے