سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(295) ترکہ میں پدری بھائی کا حق

  • 11545
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 984

سوال

(295) ترکہ میں پدری بھائی کا حق

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہارون آباد سے عبد الرشید لکھتے ہیں۔کہ عباد اللہ ولد فوت ہوا پسماندگان میں سے صرف ایک پدری بھائی اور بیوہ بقید حیات ہیں شریعت کے مطابق متوفی کا ترکہ کیسے تقسیم ہوگا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت اسلامیہ کی رو سے اگر فوت ہونے والا لا ولد ہے تواس کی جائیداد سے چوتھا حصہ اس کی بیوی کا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اگر تمہاری اولاد نہ ہوتو تمہاری عورتوں کاتمہارے  ترکہ سے چوتھا حصہ ہے۔''

بیوہ کو مقررہ حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے گا۔وہ پدری بھائی کو مل جائےگا۔فرمان نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  ہے۔:'' مقررہ حصے حقداروں کے دینے کے بعد جو باقی بچے وہ میت کے اس قریبی رشتہ دار کے لئے جو مذکر ہو۔''(صحیح بخاری :کتاب الفرائض حدیث نمبر 673)

صورت مسئولہ میں قریبی  رشتہ دار پدری بھائی کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔ لہذا بیوہ کو4/1 دینے کے بعد 4/3 باقی بچتا ہے۔وہ متوفی کے پدری بھائی کا حصہ ہے۔اس بنا پر متوفی کی کل جائیداد کو چار حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ ( جو کل جائیداد کا3/1ہے)بیوہ کودے دیا جائے۔اور باقی تین حصے(جو کل جائیداد کا4/3 ہے) اس کے  پدری بھائی کا حق  ہے۔(واللہ اعلم بالصواب)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:321

تبصرے