السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا اسلام میں پسند کی شادی کرنا جائز ہے۔ ؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!فطری اعتبار سے شادی ہمیشہ پسند سے ہی ہوتی ہے ،اور اسلام نے بھی اس پسند اور نا پسند کا خیال رکھا ہے۔مرد تو خود ولی ہوتا ہے اور وہ اپنی پسند سے شادی کر لیتا ہے،اسلام نے لڑکی کی پسند کا بھی لحاظ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : لَا تُنْکَحُ الْأَيِّمُ حَتَّی تُسْتَأْمَرَ وَلَا تُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتَّی تُسْتَأْذَنَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَکَيْفَ إِذْنُهَا قَالَ أَنْ تَسْکُتَ (بخاری کتاب النکاح)ثیبہ عورت کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور نہ باکرہ کا بغیر اس کی اجازت کے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ! باکرہ کی اجازت کس طرح معلوم ہوسکتی ہے، فرمایا کہ اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت ہے۔ بلکہ ایک دفعہ حضوراکرم ﷺ کے دور مبارک میں ایک عورت کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر ہوا، اس نے آپﷺ سے عرض کیا تو آپ نے اس کا نکاح فسخ کردیا ۔ عَنْ خَنْسَائَ بِنْتِ خِذَامٍ الْأَنْصَارِيَّةِ أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهْيَ ثَيِّبٌ فَکَرِهَتْ ذَلِکَ فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ نِکَاحَها (بخاری کتاب النکاح)حضرت خنساء بنت خذام انصاریہ کہتی ہیں کہ میرے والد نے ایک جگہ میرا نکاح کردیا اور میں ثیبہ تھی اور مجھے وہ نکاح منظور نہ تھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے میرا نکاح فسخ کردیا۔ یہ روایات اس بارے میں خوب واضح ہیں کہ عورت کی پسند کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کا نکاح کیا جائے۔ لیکن یاد رہے کہ یہ نکاح گھر سے بھاگ کر اور ولی کی اجازت کے بغیر کرنا ناجائز اور حرام ہے۔اس قسم کا نکاح شریعت اور معاشرے کی نگاہ میں پسندیدہ نہیں ہے،اس لیے کہ شریعت نے جہاں نکاح میں عورت کی پسند اور ناپسند کو ملحوظ رکھا ہے وہاں ساتھ راستہ بھی بتا دیا کہ تمام معاملات اولیاء کے ہاتھوں سرانجام ہوں، اسلام نے جہاں اس بات کی اجازت دی کہ کہ ایک مسلمان خاتون کا نکاح بلاتمیز رنگ ونسل، عقل وشکل اور مال وجاہت ہر مسلمان کے ساتھ جائز ہے وہاں اس نے انسانی فطرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ پابندی بھی عائد کی ہے کہ اس عقد سے متاثر ہونے والے اہم ترین افراد کی رضامندی کے بغیر بے جوڑ نکاح نہ کیا جائے تاکہ اس عقد کے نتیجے میں تلخیوں، لڑائی جھگڑوں کا طوفان برپا نہ ہوجائے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتوی کمیٹیمحدث فتوی |