سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(102) اللہ تعالیٰ کے لئے ستارکا نام ثابت ہے یا نہیں؟

  • 11527
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 5460

سوال

(102) اللہ تعالیٰ کے لئے ستارکا نام ثابت ہے یا نہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اللہ تعالیٰ کےنام"الستار"کے بارے میں بتائیں کیا یہ نام اسماء حسنیٰ میں وارد ہوا ہے،بعض بھائی انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسماء حسنیٰ میں یہ نام نہیں اور اللہ تعالیٰ کے نام توقیفی ہیں اس میں اپنی طرف سے اضافہ نہیں کیا جا سکتا۔  (تمہارا بھائی نادرشاہ طالب علم نبوی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کا کہنا کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء توقیفی ہیں درست اور قابل قبول ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا نام "الستار"ہمیں حدیث میں ملا ہے۔سنن نسائی(1/26)رقم:(939)میں بسند صحیح یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ایک شخص کو کھلے میدان میں نہاتے ہوئے دیکھا تو آپ منبر پر چڑھے اللہ تعالیٰ حمدو ثنا کے بعد فرمایا،"اللہ تعالیٰ حلیم،حی ستیر بردبار حیا ناک اور پردہ ڈالنے والا ہے حیا اور ستر کو پسند فرماتا ہے جب تم میں سے کوئی نہائے تو اسے ستر کرنا چاہیئے"۔احمد (4/224)ابو داود(2/201)

رقم:(4012)۔المشکاۃ(1/49)رقم:447)الارواء(2335) (7/397)بیہقی(1/198)"الستیر،اور "الستار"ایک ہی ہیں اس نام کا اللہ تعالیٰ پراطلاق کیا جا سکتا ہے۔اس مناسبت سے ہم وہ اسماء حسنیٰ ذکر کرتے ہیں جس کا ترمذی کی  مشہورحدیث میں ذکر نہیں:

«اَلْحَیِیُّ،السِّتِّیْرُ،الْحَنَّانُ،الْمَنَّانُ،الْمُسْتَعَانُ،العلام،المحسن،الجمیل،المولی،النصیرالسید،المسعرالطیب،الوتر،الکریم،الاکرم،الشافی،الاعلی،المبین،العالم،    غافرالذنب،قابل التوب،شدیدالعقاب،ذی الطول،الجواد،الطیف، الرفیق،اھل التقوی،اھل المغفر،خیرالحافظ،خیر الراحمین، نعم المولی،نعم النصیر، نعم الماھدون، الظاھر،المبارک،فعال لما یرید، ذوالعرش المجید، القریب،القائم،الاعز،السبوحالقاھر،الغالب،الکافی،الصالح،مقلب القلوب۔»

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسولؐ نے فرمایا،"جب تم فیصلہ کرو تو عدل سے کام لو اور قتل کرتے ہوئے بھی احسان کرو،یقیناً اللہ تعالٰی محسن ہے اور احسان کو پسند فرماتا ہے"نکالا اسے ابن ابی عاصم نے الدیات(ص:52)میں،ابن عدی نے الکامل

(6/2145)میں جیسےکہ الصحیحہ (1/761)رقم: (479)

میں ہے اور احمد (5/154۔177)میں حدیث ابو ذر میں ہے:

"اگر تمہارے پہلے اور پچھلے انسان و جن،زندہ ومردہ

خشک وتر سب اکٹھے ہو جائیں اور ہر سوال کرنے والا مجھ سے اپنی آرزو کےمطابق سوال کرے اور میں ہر سائل کو اس کا مانگا ہوا دے دوں تو اس سے (میرے خزانوں میں سے)اسی قدر کم ہو گا جیسے کہ تم میں سے کوئی سمندر کے کنارے پر گزرے اور اس میں سوئی ڈبو کر نکال لے اسی طرح میرے ملک میں سے کچھ کم نہیں ہوتا اس لیے کہ میں جواد اور ماجد ہوں میرادینا کلام اور میرا عذاب کلام ہوتا ہے میں جس چیز کا ارادہ کروں تو میں صرف کن (ہو جا ) کہتا ہوں تو وہ ہو جاتا ہے۔ابن ماجہ (2/1422)رقم:(4257)

پہلی حدیث میں لیث بن سلیم ہے اور دونوں ضعیف ہیں۔لیکن اس حدیث کا اکثر حصہ صحیح مسلم میں ہے المشکاۃ(1/205) رقم:(2326،2350)میں ہے۔

المسیب سے مروی ہے انہوں نے کہتے ہوئے سنا کہ،"اللہ تعالیٰ طیب ہے اور طیب کو پسند کرتا ہے،صاف ہے اور صفائی کو پسند کرتا ہے،کریم ہے کرم کو پسند کرتا ہے،سخی ہے سخاوت کو پسند کرتا ہے تو صاف رکھو (میرا خیال ہے)کہ اپنے گھروں کے آس پاس کو اور یہودیوں کی مشابہت نہ کرو۔وہ کہتے ہیں میں نے اس حدیث کا ذکر مہاجر بن مسمار سے کیا تو اس نے کہا مجھے عامر بن سعد نے اپنے والد سے یہ حدیث سنائی اس کے والد نے نبیؐ سے اسی طرح۔ مگر اس نے کہا،اپنے آس پاس کو صاف رکھو اور سند اس کی حسن ہے،ترمذی نے اس کی سند کو ضعیف کہا ہے،اور حدیث میں ہے،"یقیناً اللہ طیب ہے اور طیب اسے پسند ہے"نکالا اس حدیث کو مسلم نے اور ترمذی نے برقم:(3186)اور مسلم (2/322)المشکاۃ (2/431)میں حدیث ہے،"اللہ رفیق(نرم)ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے،اور حدیث مسلم (651)میں ہے،"اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے۔"اور حدیث ابن ماجہ رقم:(3859)میں ہے،"اے اللہ میں تیرے نام ساتھ تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے طاہر،طیب،مبارک اور تجھے زیادہ محبوب نام کے ساتھ ۔ الحدیث ۔ اور سند اس کی ضعیف ہے۔

لیکن تحقیق ثانی سے یہ بات سامنے آئی کہ ستار نام اگرچہ معنی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کیلئے استعمال کرنا صحیح ہے لیکن اس نام سے کرنا یا عبدالستار نام رکھنا مناسب نہیں کیونکہ باوجود تحقیق ہمیں اللہ کیلئے ستار نام نہیں ملا۔ یعنی جملہ خبریہ میں ستار نام استعمال کرنا درست ہے، یہ کہنا صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ ستار ہے لیکن دعاوۤں میں یا ستار کہنا صحیح نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اسماء توقیفی ہیں )اس مسئلہ کی وضاحت اس فتاوی (8/441)رقم المسئلہ (1832)میں ذکر ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص207

محدث فتویٰ

تبصرے