سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(100) اس عالم میں مخلوقات کی تعداد کتنی ہے؟

  • 11525
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 5908

سوال

(100) اس عالم میں مخلوقات کی تعداد کتنی ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس عالم میں پیدا شدہ مخلوقات کتنی ہیں؟کسی نے کہا ہے ایک ہزار آٹھ سو ہیں،کسی نے اس سے کم بتایا ہے۔راجح بات کونسی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہم کہتے ہیں:

اول: تو اس مسئلے کا تعلق دین سے نہیں کہ ہم اس کی تحقیق کریں اور کسی شخص کے حسن اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ وہ لا یعنی چیزیں ترک کر دے۔ تو مسلمان کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ دین و عقیدہ اور ایمان اور اسی طرح اللہ کی رضا اور ناراضگی والے امور کے بارے میں معلومات حاصل کرے۔

دوم: لیکن اس سوال میں ایک دو وجہ سے فائدہ ہے اور اللہ تعالٰی کی قدرت کی معرفت ہے اور اس کی مخلوق کی عظمت جو پیدا کرنے والے کی عظمت پر دلالت کرتی ہے۔ تو یہ نور ایمان کی زیادت کا باعث بنتا ہے نتیجتاً بندہ اپنے رب کا مطیع ومنقاد ہو جاتا ہے۔امام بیہقیؒ شعب ایمان میں ایک حدیث لائے اور صاحب مشکوۃ نے(2/471۔472)میں کنزالعمال(12/337)رقم:(3529)میں ذکر کیا ہے اور اشارہ کیا ہے کہ اسے حکیم الترمذی، ابو یعلٰیاور ابو الشیخ نے"العظمۃ"میں اور امام بیہقیؒ نے شعب الایمان میں ذکر کیا ہے اور جو بروایت عمر ہے اسے ضعیف کہا ہے اور اس کے لفظ یہ ہیں:"جابر بن عبداللہ روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ان کی وفات کے سال ٹڈے ناپید ہو گئے تو آپ رضی اللہ عنہ بڑے غمگین ہوئے تو آپ نے ایک سوار عراق اورایک سوار شام کو بھیجا۔تاکہ وہ تڈی دل کے بارے پوچھیں کہ کہیں نظر آئے ہیں یا نہیں تو یمن کی طرف جانے والے سوار نے ایک مٹھی ٹڈوں کی لا کر آپ کے سامنے رکھ دی۔

عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھ کر مارے خوشی کے اللہ اکبر کہا، اور فرمایا:میں نے رسولؐ کو فرماتے ہوئے سنا،"اللہ تعالٰی نے ایک ہزار امتیں پیدا فرمائی ہیں جن میں چھ سو سمندر میں اورباقی چار سو خشکی میں ہیں۔سب سے پہلے نابود ہونے والی امت ٹڈی ہے جب ٹڈی نابود ہو جائیں گی تو باقی امتیں بھی دھاگے میں پروئے ہوئے موتیوں کی طرف یکے بعد دیگرے ناپید ہونا شروع ہو جائیں گی۔واللہ اعلم.

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص206

محدث فتویٰ

تبصرے