سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(293) عدالت کے ذریعہ جائیداد کے وارث بننا

  • 11515
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 907

سوال

(293) عدالت کے ذریعہ جائیداد کے وارث بننا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بدوملہی سے چوہدری بشیر احمد بشر ملہی سوال کر تے ہیں  کہ ایک  آدمی  کی تین  بیٹیاں  اور ایک بیٹا ہے اس نے اپنی بیو ی کو طلا ق  دے دی  ہے  جو مؤثر  ہو چکی  ہے عورت  کے پا س  ایک  بیٹی اور ایک بیٹا  ہے آدمی  نے انہیں  حا صل  کر نے کے لیے عدا لت  سے رجو ع کیا  تو عدا لت  نے مو جو د ہ صورتحا ل کو بحا ل  رکھا  ہے کہ آدمی  عورت  سے بیٹی  اور بیٹا  نہیں لے سکتا  اب سوال یہ ہے  کہ : (لف ) جو بیٹی اور بیٹا  عورت کے پا س ہے  ان کے اکرا جا ت  کس  کے ذمے  ہیں ؟

(ب) بیٹی کے نکا ح  کے مو قع پر  با پ  اس کی دلا لت  کا حق  دار ہو گا  یا نہیں ؟

 (ج) کیا بیٹی اور بیٹا والد  کی جا ئیداد کے وارث  بن سکتے ہیں ؟جب کہ  عدا لت نے بیٹی اور بیٹا عورت کو دے  دیا  ہے ۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت  اسلا میہ نے بچے   کی پر ورش  کا حقدار  ما ں کو ٹھہرا یا  ہے اس طرح  چھو ٹے  بچو ں  کی پرورش  کر نے  کو شر عی  اصطلا ح  میں حضا نت  کہا جا تا ہے  والد  ہ کا حق  یہ حضا نت  متعدد روایا ت  سے ثا بت  ہے کیوں  کہ بچے  کے حق  میں ما ں  انتہا ئی  مہربا ن  ہو تی ہے  اور پرو رش نگرا نی  میں مر د  کی نسبت  زیا د ہ  قدرت  رکھتی   ہے چو نکہ اولا د کی نسبت با پ  کی طرف  ہو تی ہے  اور وہ  ہی  ان کا حق دار  ہو تا ہے  اس لیے دوران  حضانت  اٹھنے  والے  اخرا جا ت  کا ذمہ  دار بھی وہی  ہے کہ ما ں کو جو حق حضا نت  دیا گیا ہے اس کی کچھ  حدود  قیو د ہیں مثلاً:

(1)بچے بلو غت  تک ما ں کے پا س  رہ سکتےہیں اس کے بعد  با پ  انہیں  واپس  لینے  کا قا نو نی  اور شر عی  حق رکھتا ہے ۔

 (2) اگر ما ں آگے  نکا ح  کر لیتی ہے  تو بھی  اس کا حق  حضا نت  ختم ہوجاتا ہے حدیث میں اس کی وضا حت مو جو د ہے  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فر ما یا :" کہ جب  تک نکا ح  ثا نی  نہ کر ے  بچے  کی پرورش  کی حقدار ہے۔(مسند امام:1/182)

 (3) اگر ما ں  کے پا س رہنے  سے ان  کی ذہنیت  خرا ب    ہو نے کا اند یشہ  ہو یا  جسما نی  پرورش  صحیح  طو ر  پر نہ ہو سکتی  ہو تو  بھی با پ  کواپنی  اولا د واپس  لینے  کا حق ہے ۔امام ابن تیمیہ  رحمۃ للہ علیہ  لکھتے ہیں :"کہ اگر ما ں کسی غیر محفوظ  جگہ  پر رہا ئش  رکھے  ہو ئے ہے یا اخلا قی  گراوٹ کا شکا ر ہے تو با پ  کو اپنی  اولا د واپس  لینے  کا حق  ہے /(فتا وی ابن تیمیہ 34/131)

صورت مسئولہ  میں اگر  با پ  نے عدا لت  کے فیصلے کو تسلیم کر لیا  ہے اور  وہ اپنی  اولا د  کو واپس  لینے  کا ارادہ  نہیں رکھتا تو اس پر اولا د کی پر ورش کے اخرا جا ت نہیں ڈالے  جا ئیں گے  کیو نکہ  وہ انہیں  واپس لینے  کے حق  سے دستبردار ہو چکا ہے  اگر  وہ بلو غ  کے بعد  انہیں  واپس  لینا  چا ہتا  ہے تو  ان  پر اٹھنے  والے اخرا جا ت  کا پو ر ا کر نا  اس کی ذمہ داری ہے ۔

(ب) اگر والد مستقل طور پر بچی  اپنی  مطلقہ  بیو  کے حو الے  کر چکا  ہے اور آیندہ  لینے  کا ارادہ  نہیں رکھتا  تو وہ  حق  دلا یت  سے محروم  ہے  شا دی  کے مو قع  پر  کسی  بھی  ہمدرد  اور عقلمند  رشتہ دار   کو ولی مقرر کیا جا سکتا ہے  ماں کو حق  دلا یت  کسی صورت  میں نہیں مل سکتا  اگر  رشتہ   دارو ں  میں کو ئی  اس قا بل  نہ ہو تو  محلے  کے  دا نا اور عقلمند  آدمی   پنچا یتی  طو ر  پر حق  دلایت  کو نبھا ئیں ۔

(ج) وہ اولا د جو مستقل طو ر پر با پ  اپنی مطلقہ  بیو ی کو دے چکا ہے وہ باپ  کی وراثت  سے محروم  نہیں ہو گی  وراثت  سے محرومی  کے  اسباب شریعت  نے مقرر  فر ما ئے  ہیں  کہ اولا د  مرتد ہو جا ئے  یا با پ کو قتل کر دے  تو حق  وراثت  سے خو د بخو د  محرو م  ہو جا تی ہے  صورت  مسئو لہ  میں کو ئی  ایسا  سبب  مو جو د نہیں  جس کی بنا  پر اسے  با پ  کی جا ئیداد  سے محروم  کیا جا ئے ۔(واللہ اعلم  بالصواب )

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:319

تبصرے